اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے جو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور اس کے رسول کو جھٹلا رہے ہیں زمین کی سیر نہیں کی؟ جو یہ معلوم کر لیتے ہیں اور اپنی آنکھوں دیکھ لیتے ہیں کہ ان سے اگلے جو ان جیسے تھے ان کے انجام کیا ہوئے؟ کس طرح وہ تخت و تاراج کر دئیے گئے اور ان میں سے صرف اسلام و ایمان والے ہی نجات پا سکے کافروں کے لیے اسی طرح کے عذاب آیا کرتے ہیں۔
پھر بیان فرماتا ہے مسلمانوں کا خود اللہ ولی ہے اور کفار بے ولی ہیں۔ اسی لیے احد والے دن مشرکین کے سردار ابوسفیان (صخر) بن حرب نے فخر کے ساتھ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں خلفاء کی نسبت سوال کیا اور کوئی جواب نہ پایا تو کہنے لگا کہ یہ سب ہلاک ہو گئے پھر اسے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اور فرمایا ”جن کی زندگی تجھے خار کی طرح کھٹکتی ہے اللہ نے ان سب کو اپنے فضل سے زندہ ہی رکھا ہے۔“ ابوسفیان کہنے لگا سنو یہ دن بدر کے بدلے کا دن ہے اور لڑائی تو مثل ڈولوں کے ہے کبھی کوئی اوپر کبھی کوئی اوپر۔ تم اپنے مقتولین میں بعض ایسے بھی پاؤ گے جن کے ناک کان وغیرہ ان کے مرنے کے بعد کاٹ لیے گئے ہیں میں نے ایسا حکم نہیں دیا لیکن مجھے کچھ برا بھی نہیں لگا پھر اس نے رجز کے اشعار فخریہ پڑھنے شروع کئے کہنے لگا «اُعْلُ هُبَل اُعْلُ هُبَل» ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا جواب دیں؟ فرمایا: کہو «اَللهُ اَعْلَی وَاَجَلُّ» یعنی وہ کہتا تھا ”ہبل بت کا بول بالا ہو“، جس کے جواب میں کہا گیا ”سب سے زیادہ بلندی والا اور سب سے زیادہ عزت و کرم والا اللہ ہی ہے۔“ ابوسفیان نے پھر کہا «لَنَا الْعُزَّی وَلَا عُزَّی لَکُمْ» ”ہمارا عزیٰ (بت) ہے اور تمہارا نہیں۔“ اس کے جواب میں بفرمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہا گیا «اَللهُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلٰى لَکُمْ» اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہار مولا کوئی نہیں۔ [صحیح بخاری:4043]