قرآن مجيد

سورة الأحقاف
وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَلَيْسَ هَذَا بِالْحَقِّ قَالُوا بَلَى وَرَبِّنَا قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ[34]
اور جس دن وہ لوگ جنھوںنے کفر کیا، آگ پر پیش کیے جائیں گے، کیا یہ حق نہیں ہے؟ کہیں گے کیوں نہیں، ہمارے رب کی قسم! وہ کہے گا پھر چکھو عذاب اس کے بدلے جو تم کفر کیا کرتے تھے۔[34]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 33، 34،

باب

اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے جو مرنے کے بعد جینے کے منکر ہیں اور قیامت کے دن جسموں سمیت جی اٹھنے کو محال جانتے ہیں یہ نہیں دیکھا کہ اللہ نے کل آسمانوں اور تمام زمینوں کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش نے اسے کچھ نہ تھکایا بلکہ صرف ہو جا کے کہنے سے ہی ہو گئیں، کون تھا جو اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتا، یا مخالفت کرتا بلکہ حکم برداری سے راضی خوشی ڈرے دبتے سب موجود ہو گئے، کیا اتنی کامل قدرت و قوت والا مرُدوں کے زندہ کر دینے کی سکت نہیں رکھتا؟

چنانچہ دوسری آیت میں ہے «لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ» [40-غافر:57] ‏‏‏‏ یعنی ” انسانوں کی پیدائش سے تو بہت بھاری اور مشکل اور بہت بڑی اہم پیدائش آسمان و زمین کی ہے لیکن اکثر لوگ بےسمجھ ہیں “۔ جب زمین و آسمان کو اس نے پیدا کر دیا تو انسان کا پیدا کر دینا خواہ ابتدًا ہو، خواہ دوبارہ ہو اس پر کیا مشکل ہے؟ اسی لیے یہاں بھی فرمایا کہ ہاں وہ ہر شے پر قادر ہے اور انہی میں سے موت کے بعد زندہ کرتا ہے کہ اس پر بھی وہ صحیح طور پر قادر ہے۔

پھر اللہ جل و علا کافروں کو دھمکاتا ہے کہ قیامت والے دن جہنم میں ڈالے جائیں گے، اس سے پہلے جہنم کے کنارے پر انہیں کھڑا کر کے ایک مرتبہ پھر لاجواب اور بے حجت کیا جائے گا اور کہا جائے گا، کیوں جی ہمارے وعدے اور یہ دوزخ کے عذاب اب تو صحیح نکلے یا اب بھی شک و شبہ اور انکار و تکذیب ہے؟ یہ جادو تو نہیں، تمہاری آنکھیں تو اندھی نہیں ہو گئیں؟ جو دیکھ رہے ہو صحیح دیکھ رہے ہو یا درحقیقت صحیح نہیں؟ اب سوائے اقرار کے کچھ نہ بن پڑے گا، جواب دیں گے کہ ہاں ہاں سب حق ہے جو کہا گیا تھا وہی نکلا قسم اللہ کی اب ہمیں رتی برابر بھی شک نہیں، اللہ فرمائے گا اب دو گھڑی پہلے کے کفر کا مزہ چکھو۔