اور ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، ان لوگوں سے کہا جو ایمان لائے اگر یہ کچھ بھی بہتر ہوتا تو یہ ہم سے پہلے اس کی طرف نہ آتے اورجب انھوں نے اس سے ہدایت نہیں پائی تو ضرور کہیں گے کہ یہ پرانا جھوٹ ہے۔[11]
اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ ان مشرکین کافرین سے کہو کہ اگر یہ قرآن سچ مچ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور پھر بھی تم اس کا انکار کر رہے ہو، تو بتلاؤ تو تمہارا کیا حال ہو گا؟ وہ اللہ جس نے مجھے حق کے ساتھ تمہاری طرف یہ پاک کتاب دے کر بھیجا ہے، وہ تمہیں کیسی کچھ سزائیں کرے گا؟، تم اس کا انکار کرتے ہو، اسے جھوٹا بتلاتے ہو حالانکہ اس کی سچائی اور صحت کی شہادت وہ کتابیں بھی دے رہی ہیں جو اس سے پہلے وقتاً فوقتاً اگلے انبیأء علیہ السلام پر نازل ہوتی رہیں اور بنی اسرائیل کے جس شخص نے اس کی سچائی کی گواہی دی، اس نے حقیقت کو پہچان کر اسے مانا اور اس پر ایمان لایا۔ لیکن تم نے اس کی اتباع سے جی چرایا اور تکبر کیا۔
یہ بھی مطلب بیان ہو گیا ہے کہ اس شاہد نے اپنے نبی پر اور اس کی کتاب پر یقین کر لیا لیکن تم نے اپنے نبی اور اپنی کتاب کے ساتھ کفر کیا۔ اللہ تعالیٰ ظالم گروہ کو ہدایت نہیں کرتا۔
«شَاھِدٌ» کا لفظ ہم جنس ہے اور یہ اپنے معانی کے لحاظ سے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ وغیرہ سب کو شامل ہے۔ یہ یاد رہے کہ یہ آیت مکی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے اسلام سے پہلے کی ہے۔
اسی جیسی آیت یہ بھی ہے «وَإِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ» [28-القصص:53] یعنی ” جب ان پر تلاوت کی جاتی ہے تو اقرار کرتے ہیں کہ یہ ہمارے رب کی جانب سے سراسر برحق ہے ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں “۔
اور فرمان ہے «قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا» [17-الإسراء:108،107] یعنی ” جن لوگوں کو اس سے پہلے علم عطا فرمایا گیا ہے ان پر جب تلاوت کی جاتی ہے تو وہ بلا پس و پیش سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زبان سے کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے، اس کے وعدے یقناً سچے اور ہو کر رہنے والے ہیں “۔
مسروق اور شعبی رحمہا اللہ فرماتے ہیں یہاں اس آیت سے مراد سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نہیں، اس لئے کہ آیت مکہ میں اترتی ہے اور آپ مدینے کی ہجرت کے بعد اسلام قبول کرتے ہیں۔
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کسی شخص کے بارے میں جو زندہ ہو اور زمین پر چل پھر رہا ہو، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اس کا جنتی ہونا نہیں سنا، بجز سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے، انہی کے بارے میں «قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ» [سورةالأحقاف46:10] نازل ہوئی ہے [ صحیحین وغیرہ ]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد، ضحاک، قتادہ، عکرمہ، یوسف بن عبداللہ بن سلام، ہلال بن بشار، سدی، ثوری، مالک بن انس بن زبیر رحمہم اللہ علیہم کا قول ہے کہ اس سے مراد سیدنا ابن سلام رضی اللہ عنہ ہیں۔
یہ کفار کہا کرتے ہیں کہ اگر قرآن بہتری کی چیز ہوتی، تو ہم جیسے شریف انسان جو اللہ کے مقبول بندے ہیں، ان پر بھلا یہ نیچے کے درجے کے لوگ جیسے بلال، عمار، صہیب، خباب رضی اللہ عنہم اور انہی جیسے اور گرے پڑے لونڈی غلام کیسے سبقت کر جاتے۔ پھر تو اللہ سب سے پہلے ہمیں ہی نوازتا۔ حالانکہ یہ قول بالبداہت باطل ہے۔
اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے «وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولُوا أَهَـٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ» [سورةالأنعام6:53] یعنی انہیں تعجب معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کیسے ہدایت پا گئے؟ اگر یہ چیز بھلی ہوتی تو ہم اس کی طرف لپک کر جاتے۔ پس یہ خیال ان کا خام تھا لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ نیک سمجھ والے، سلامت روی والے، ہمیشہ بھلائی کی طرف سبقت کرتے ہیں۔
اسی لیے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ جو قول و فعل صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے، اس لیے کہ اگر اس میں بہتری ہوتی تو وہ پاک جماعت جو کسی چیز میں پیچھے رہنے والی نہ تھی وہ اسے ترک نہ کرتی۔ چونکہ اپنی بدنصیبی کے باعث یہ گروہ قرآن پر ایمان نہیں لایا اس لیے یہ اپنی خجالت دفع کرنے کو قرآن کی اہانت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تو پرانے لوگوں کی پرانی غلط باتیں ہیں، یہ کہہ کر وہ قرآن اور قرآن والوں کو طعنہ دیتے ہیں۔ یعنی وہ تکبر ہے جس کی بابت حدیث میں ہے کہ تکبر نام ہے حق کو ہٹا دینے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا ۔ [صحیح مسلم:91]