قرآن مجيد

سورة الأحقاف
تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ[2]
اس کتاب کا اتارنا اللہ کی طرف سے ہے جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔[2]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3،

باب

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس قرآن کریم کو اس نے اپنے بندے اور اپنے سچے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے اور بیان فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی بڑی عزت والا ہے جو کبھی کم نہ ہو گی۔ اور ایسی زبردست حکمت والا ہے جس کا کوئی قول، کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں۔

پھر ارشاد فرماتا ہے کہ آسمان و زمین وغیرہ تمام چیزیں اس نے عبث اور باطل پیدا نہیں کیں بلکہ سراسر حق کے ساتھ اور بہترین تدبیر کے ساتھ بنائی ہیں اور ان سب کے لیے وقت مقرر ہے جو نہ گھٹے، نہ بڑھے۔ اس رسول سے، اس کتاب سے اور اللہ کے ڈراوے کی اور نشانیوں سے جو بدباطن لوگ بےپرواہی اور لا ابالی کرتے ہیں انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے کس قدر خود اپنا ہی نقصان کیا۔

پھر فرماتا ہے ذرا ان مشرکین سے پوچھو تو کہ اللہ کے سوا جن کے نام تم پوجتے ہو جنہیں تم پکارتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو ذرا مجھے بھی تو ان کی طاقت قدرت دکھاؤ بتاؤ تو زمین کے کس ٹکڑے کو خود انہوں نے بنایا ہے؟ یا ثابت تو کرو کہ آسمانوں میں ان کی شرکت کتنی ہے اور کہاں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آسمان ہوں یا زمینیں ہوں یا اور چیزیں ہوں ان سب کا پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

بجز اس کے کسی کو ایک ذرے کا بھی اختیار نہیں، تمام ملک کا مالک وہی ہے، وہ ہر چیز پر کامل تصرف اور قبضہ رکھنے والا ہے، تم اس کے سوا دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ کیوں اس کے سوا دوسروں کو اپنی مصیبتوں میں پکارتے ہو؟ تمہیں یہ تعلیم کس نے دی؟ کس نے یہ شرک تمہیں سکھایا؟ دراصل کسی بھلے اور سمجھدار شخص کی یہ تعلیم نہیں ہو سکتی۔ نہ اللہ نے یہ تعلیم دی ہے اگر تم اللہ کے سوا اوروں کی پوجا پر کوئی آسمانی دلیل رکھتے ہو، تو اچھا اس کتاب کو تو جانے دو اور کوئی آسمانی صحیفہ ہی پیش کر دو۔ اچھا نہ سہی اپنے مسلک پر کوئی دلیل علم ہی قائم کرو لیکن یہ تو جب ہو سکتا ہے کہ تمہارا یہ فعل صحیح بھی ہو، اس باطل فعل پر نہ تو تم کوئی نقلی دلیل پیش کر سکتے ہو نہ عقلی ایک قرأت میں «او اثرة من علم» یعنی کوئی صحیح علم کی نقل اگلوں سے ہی پیش کرو۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ کسی کو پیش کرو جو علم کی نقل کرے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:273/11] ‏‏‏‏

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس امر کی کوئی بھی دلیل لے آؤ۔ مسند احمد میں ہے اس سے مراد علمی تحریر ہے [مسند احمد:262/1:صحیح] ‏‏‏‏

راوی کہتے ہیں میرا تو خیال ہے یہ حدیث مرفوع ہے۔ ابوبکر بن عیاش رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد بقیہ علم ہے۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کسی مخفی دلیل کو ہی پیش کر دو ان اور بزرگوں سے یہ بھی منقول ہے کہ مراد اس سے اگلی تحریریں ہیں۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کوئی خاص علم، اور یہ سب اقوال قریب قریب ہم معنی ہیں۔ مراد وہی ہے جو ہم نے شروع میں بیان کر دی امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔