قرآن مجيد

سورة الجاثيه
وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا عَمِلُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ[33]
اور ان کے لیے ان اعمال کی برائیاں ظاہر ہو جائیں گی جو انھوں نے کیے اور انھیں وہ چیز گھیر لے گی جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔[33]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 33، 34، 35، 36، 37،

باب

اب ان کی بداعمالیوں کی سزا ان کے سامنے آ گئی، اپنی آنکھوں اپنے کرتوت کا بدلہ دیکھ چکے اور جس عذاب و سزا کا انکار کرتے تھے، جسے مذاق میں اڑاتے تھے، جس کا ہونا ناممکن سمجھ رہے تھے، ان عذابوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور انہیں ہر قسم کی بھلائی سے مایوس کرنے کے لیے کہہ دیا گیا کہ ہم تمہارے ساتھ وہی معاملہ کریں گے جیسے کوئی کسی کو بھول جاتا ہے یعنی جہنم میں جھونک کر پھر تمہیں کبھی اچھائی سے یاد بھی نہ کریں گے۔ یہ بدلہ ہے اس کا کہ تم اس دن کی ملاقات کو بھلائے ہوئے تھے، اس کے لیے تم نے کوئی عمل نہ کیا، کیونکہ تم اس کے آنے کی صداقت کے قائل ہی نہ تھے۔ اب تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے اور کوئی نہیں جو تمہاری کسی قسم کی مدد کر سکے۔

صحیح حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں سے قیامت کے دن فرمائے گا ” کیا میں نے تجھے بال بچے نہیں دئیے تھے؟، کیا میں نے تجھ پر دنیا میں انعام و اکرام نازل نہیں فرمائے تھے؟، کیا میں نے تیرے لیے اونٹوں اور گھوڑوں کو مطیع اور فرمانبردار نہیں کیا تھا؟ اور تجھے چھوڑ دیا تھا کہ سرور و خوشی کے ساتھ اپنے مکانات اور حویلیوں میں آزادی کی زندگی بسر کرے؟“ یہ جواب دے گا کہ میرے پروردگار یہ سب سچ ہے، بے شک تیرے یہ تمام احسانات مجھ پر تھے، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” آج میں تجھے اس طرح بھلا دوں گا جس طرح تو مجھے بھول گیا تھا “ ۔ [صحیح مسلم:2968] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے کہ یہ سزائیں تمہیں اس لئے دی گئی ہیں کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا خوب مذاق اڑایا تھا اور دنیا کی زندگی نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا، تم اسی پر مطمئن تھے اور اس قدر تم نے بے فکری برتی کہ آخر آج نقصان اور خسارے میں پڑ گئے۔ اب تم دوزخ سے نکالے نہ جاؤ گے اور نہ تم سے ہماری خفگی کے دور کرنے کی کوئی وجہ طلب کی جائے گی، یعنی اس عذاب سے تمہارا چھٹکارا بھی محال اور اب میری رضا مندی کا تمہیں حاصل ہونا بھی ناممکن۔ جیسے کہ مومن بغیر عذاب و حساب کے جنت میں جائیں گے۔ ایسے ہی تم بے حساب عذاب کئے جاؤ گے اور تمہاری توبہ بےسود رہے گی۔

اپنے اس فیصلے کو جو مومنوں اور کافروں میں ہو گیا بیان فرما کر اب ارشاد فرماتا ہے کہ تمام حمد زمین و آسمان اور ہر چیز کے مالک اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ جو کل جہان کا پالنہار ہے، اسی کو کبریائی یعنی سلطنت اور بڑائی آسمانوں اور زمینوں میں ہے، وہ بڑی عظمت اور بزرگی والا ہے، ہر چیز اس کے سامنے پست ہے ہر ایک اس کا محتاج ہے۔

صحیح مسلم کی حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ جل و علا فرماتا ہے، عظمت میرا تہبند ہے اور کبریائی میری چادر ہے، جو شخص ان میں سے کسی کو بھی مجھ سے لینا چاہے گا میں اسے جہنم رسید کر دوں گا ۔ [صحیح مسلم:2620] ‏‏‏‏

یعنی بڑائی اور تکبر کرنے والا دوزخی ہے۔ وہ «عزیز» ہے یعنی غالب ہے جو کبھی کسی سے مغلوب نہیں ہونے کا، کوئی نہیں جو اس پر روک ٹوک کر سکے، اس کے سامنے پڑ سکے، وہ «حکیم» ہے، اس کا کوئی قول کوئی فعل اس کی شریعت کا کوئی مسئلہ اس کی لکھی ہوئی تقدیر کا کوئی حرف حکمت سے خالی نہیں نہ اس کے سوا کوئی مسجود۔

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے سورۃ الجاثیہ کی تفسیر ختم ہوئی اور اسی کے ساتھ پچیسویں پارے کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»