قرآن مجيد

سورة الدخان
كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ[45]
پگھلے ہوئے تانبے کی طرح، پیٹوں میں کھولتا ہے۔[45]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 43، 44، 45، 46، 47، 48، 49، 50،

زقوم ابوجہل کی خوراک ہو گا ٭٭

منکرین قیامت کو جو سزا وہاں دی جائے گی اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ان مجرموں کو جو اپنے قول اور فعل کو نافرمانی سے ملوث کئے ہوئے تھے آج زقوم کا درخت کھلایا جائے گا۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد ابوجہل ہے۔ گو دراصل وہ بھی اس آیت کی وعید میں داخل ہے لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ آیت صرف اسی کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ ایک شخص کو یہ آیت پڑھا رہے تھے مگر اس کی زبان سے لفظ «اَثِیْم» ادا نہیں ہوتا تھا اور وہ بجائے اس کے یتیم کہہ دیا کرتا تھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے «طَعَامُ الْفَاجِر» ‏‏‏‏ پڑھوایا یعنی اسے اس کے سوا کھانے کو اور کچھ نہ دیا جائے گا۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی زمین میں ٹپک جائے تو تمام زمین والوں کی معاش خراب کر دے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے، یہ مثل تلچھٹ کے ہو گا۔ اپنی حرارت بدمزگی اور نقصان کے باعث پیٹ میں جوش مارتا رہے گا اللہ تعالیٰ جہنم کے داروغوں سے فرمائے گا کہ اس کافر کو پکڑ لو وہیں ستر ہزار فرشتے دوڑیں گے اسے اندھا کر کے منہ کے بل گھسیٹ لے جاؤ اور بیچ جہنم میں ڈال دو پھر اس کے سر پر جوش مارتا گرم پانی ڈالو۔ جیسے فرمایا «يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُ يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ» ‏‏‏‏ [ 22- الحج: 20، 19 ] ‏‏‏‏، یعنی ان کے سروں پر جہنم کا جوش مارتا گرم پانی بہایا جائے گا جس سے ان کی کھالیں اور پیٹ کے اندر کی تمام چیزیں سوخت ہو جائیں گی اور یہ بھی ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ فرشتے انہیں لوہے کے ہتھوڑے ماریں گے جن سے ان کا دماغ پاش پاش ہو جائیں گے پھر اوپر سے یہ حمیم ان پر ڈالا جائے گا یہ جہاں جہاں پہنچے گا ہڈی کو کھال سے جدا کر دے گا یہاں تک کہ اس کی آنتیں کاٹتا ہوا پنڈلیوں تک پہنچ جائے گا۔ اللہ ہمیں محفوظ رکھے پھر انہیں شرمسار کرنے کے لیے اور زیادہ پشیمان بنانے کے لیے کہا جائے گا کہ لو مزہ چکھو تم ہماری نگاہوں میں نہ عزت والے ہو نہ بزرگی والے۔

مغازی اموی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل ملعون سے کہا کہ مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ تجھ سے کہدوں «أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ثُمَّ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ» [ 75- القيامة: 34، 35 ] ‏‏‏‏» ‏‏‏‏ تیرے لیے ویل ہے تجھ پر افسوس ہے پھر مکرر کہتا ہوں کہ تیرے لیے خرابی اور افسوس ہے۔ اس پاجی نے اپنا کپڑا آپ کے ہاتھ سے گھسیٹتے ہوئے کہا جا تو اور تیرا رب میرا کیا بگاڑ سکتے ہو؟ اس تمام وادی میں سب سے زیادہ عزت و تکریم والا میں ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بدر والے دن قتل کرایا اور اسے ذلیل کیا اور اس سے کہا جائے گا کہ لے اب اپنی عزت کا اور اپنی تکریم کا اور اپنی بزرگی اور بڑائی کا لطف اٹھا اور ان کافروں سے کہا جائے گا کہ یہ ہے جس میں ہمیشہ شک شبہ کرتے رہے۔ جیسے اور آیتوں میں ہے کہ «يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَىٰ نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا هَـٰذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ أَفَسِحْرٌ هَـٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ» [ 52-الطور: 13 - 15 ] ‏‏‏‏ جس دن انہیں دھکے دے کر جہنم میں پہنچایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ وہ دوزخ ہے جسے تم جھٹلاتے رہے کیا یہ جادو ہے یا تم دیکھ نہیں رہے؟ اسی کو یہاں بھی فرمایا ہے کہ یہ ہے جس میں تم شک کر رہے تھے۔