قرآن مجيد

سورة الزخرف
وَتَبَارَكَ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ[85]
اور بہت برکت والا ہے وہ جس کے پاس آسمانوں کی اور زمین کی بادشاہی ہے اور اس کی بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے اور اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔[85]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 85، 86،

اللہ تعالیٰ کی چند صفات ٭٭

جیسے اور آیت میں ہے کہ «وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْ‌ضِ يَعْلَمُ سِرَّ‌كُمْ وَجَهْرَ‌كُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ» [6-الأنعام:3] ‏‏‏‏ ” زمین و آسمان میں اللہ وہی ہے ہر پوشیدہ اور ظاہر کو اور تمہارے ہر ہر عمل کو جانتا ہے “۔

وہ سب کا خالق و مالک سب کو بسانے اور بنانے والا سب پر حکومت اور سلطنت رکھنے والا بڑی برکتوں والا ہے۔ وہ تمام عیبوں سے کل نقصانات سے پاک ہے وہ سب کا مالک ہے بلندیوں اور عظمتوں والا ہے کوئی نہیں جو اس کا حکم ٹال سکے کوئی نہیں جو اس کی مرضی بدل سکے ہر ایک پر قابض وہی ہے ہر ایک کام اس کی قدرت کے ماتحت ہے قیامت آنے کے وقت کو وہی جانتا ہے اس کے سوا کسی کو اس کے آنے کے ٹھیک وقت کا علم نہیں ساری مخلوق اسی کی طرف لوٹائی جائے گی وہ ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کا بدلہ دے گا۔

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ” ان کافروں کے معبودان باطل جنہیں یہ اپنا سفارشی خیال کئے بیٹھے ہیں ان میں سے کوئی بھی سفارش کے لیے آگے بڑھ نہیں سکتا کسی کی شفاعت انہیں کام نہ آئے گی “۔ اس کے بعد استثناء منقطع ہے یعنی لیکن جو شخص حق کا اقراری اور شاہد ہو اور وہ خود بھی بصیرت و بصارت پر یعنی علم و معرفت والا ہو اسے اللہ کے حکم سے نیک لوگوں کی شفاعت کار آمد ہو گی۔