قرآن مجيد

سورة الزخرف
إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ[74]
بے شک مجر م لوگ جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔[74]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 74، 75، 76، 77، 78، 79، 80،

دوزخ اور دوزخیوں کی درگت ٭٭

اوپر چونکہ نیک لوگوں کا حال بیان ہوا تھا اس لیے یہاں بدبختوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ ” یہ گنہگار جہنم کے عذابوں میں ہمیشہ رہیں گے ایک ساعت بھی انہیں ان عذابوں میں تخفیف نہ ہو گی اور اس میں وہ ناامید محض ہو کر پڑے رہیں گے ہر بھلائی سے وہ مایوس ہو جائیں گے ہم ظلم کرنے والے نہیں بلکہ انہوں نے خود اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنی جان پر آپ ہی ظلم کیا ہم نے رسول بھیجے کتابیں نازل فرمائیں حجت قائم کر دی لیکن یہ اپنی سرکشی سے عصیان سے طغیان سے باز نہ آئے اس پر یہ بدلہ پایا اس میں اللہ کا کوئی ظلم نہیں اور نہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرتا ہے یہ جہنمی مالک کو یعنی داروغہ جہنم کو پکاریں گے “۔

صحیح بخاری میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا: یہ موت کی آرزو کریں گے تاکہ عذاب سے چھوٹ جائیں لیکن اللہ کا یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ «وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ» ‏‏‏‏ [35-فاطر:36] ‏‏‏‏ یعنی ” نہ تو انہیں موت آئے گی اور نہ عذاب کی تخفیف ہو گی“۔ اور فرمان باری ہے آیت «وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَىٰ ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ» ‏‏‏‏ [87-الأعلى:-13-11] ‏‏‏‏ یعنی ” وہ بدبخت اس نصیحت سے علیحدہ ہو جائے گا جو بڑی سخت آگ میں پڑے گا پھر وہاں نہ مرے گا اور نہ جئے گا “ ۔

پس جب یہ داروغہ جہنم سے نہایت لجاجت سے کہیں گے کہ آپ ہماری موت کی دعا اللہ سے کیجئے تو وہ جواب دے گا کہ تم اسی میں پڑے رہنے والے ہو مرو گے نہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مکث ایک ہزار سال ہے۔ یعنی ” نہ مرو گے نہ چھٹکارا پاؤ گے نہ بھاگ سکو گے “۔

پھر ان کی سیاہ کاری کا بیان ہو رہا ہے کہ ” جب ہم نے ان کے سامنے حق کو پیش کر دیا واضح کر دیا تو انہوں نے اسے ماننا تو ایک طرف اس سے نفرت کی۔ ان کی طبیعت ہی اس طرف مائل نہ ہوئی حق اور حق والوں سے نفرت کرتے رہے اس سے رکتے رہے ہاں ناحق کی طرف مائل رہے ناحق والوں سے ان کی خوب بنتی رہی۔ پس تم اپنے نفس کو یہی ملامت کرو اور اپنے ہی اوپر افسوس کرو لیکن آج کا افسوس بھی بے فائدہ ہے “۔

پھر فرماتا ہے کہ ” انہوں نے بدترین مکر اور زبردست داؤ کھیلنا چاہا تو ہم نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا “۔ مجاہد رحمہ اللہ کی یہی تفسیر ہے اور اس کی شہادت اس آیت میں ہے «وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ» [ 27- النمل: 50 ] ‏‏‏‏ یعنی ” انہوں نے مکر کیا اور ہم نے بھی اس طرح مکر کیا کہ انہیں پتہ بھی نہ چلا “۔

مشرکین حق کو ٹالنے کے لیے طرح طرح کی حیلہ سازی کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں دھوکے میں ہی رکھا اور ان کا وبال جب تک ان کے سروں پر نہ آ گیا اور ان کی آنکھیں نہ کھلیں۔

اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ” کیا ان کا گمان ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتیں اور خفیہ سرگوشیاں سن نہیں رہے؟ ان کا گمان بالکل غلط ہے ہم تو ان کی سرشت تک سے واقف ہیں بلکہ ہمارے مقرر کردہ فرشتے بھی ان کے پاس بلکہ ان کے ساتھ ہیں جو نہ صرف دیکھ ہی رہے ہیں بلکہ لکھ بھی رہے ہیں “۔