تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 46، 47، 48، 49، 50،
قلاباز بنی اسرائیل ٭٭
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جناب باری نے اپنا رسول و نبی فرما کر فرعون اور اس کے امراء اور اس کی رعایا قبطیوں اور بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تاکہ آپ علیہ السلام انہیں توحید سکھائیں اور شرک سے بچائیں۔ آپ علیہ السلام کو بڑے بڑے معجزے بھی عطا فرمائے جیسے ہاتھ کا روشن ہو جانا لکڑی کا اژدھابن جانا وغیرہ۔ لیکن فرعونیوں نے اپنے نبی کی کوئی قدر نہ کی بلکہ تکذیب کی اور تمسخر اڑایا۔ اس پر اللہ کا عذاب آیا تاکہ انہیں عبرت بھی ہو۔ اور نبوت موسیٰ علیہ السلام پر دلیل بھی ہو پس طوفان آیا ٹڈیاں آئیں جوئیں آئیں، مینڈک آئے اور کھیت، مال، جان اور پھل وغیرہ کی کمی میں مبتلا ہوئے۔
جب کوئی عذاب آتا تو تلملا اٹھتے موسیٰ علیہ السلام کی خوشامد کرتے انہیں رضامند کرتے ان سے قول قرار کرتے آپ علیہ السلام دعا مانگتے عذاب ہٹ جاتا۔ یہ پھر سرکشی پر اتر آتے پھر عذاب آتا پھر یہی ہوتا۔ ساحر یعنی جادوگر سے وہ بڑا عالم مراد لیتے تھے ان کے زمانے کے علماء کا یہی لقب تھا اور انہی لوگوں میں علم تھا اور ان کے زمانے میں یہ علم مذموم نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ پس ان کا جناب موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہہ کر خطاب کرنا بطور عزت کے تھا اعتراض کے طور پر نہ تھا کیونکہ انہیں تو اپنا کام نکالنا تھا۔ ہر بار اقرار کرتے تھے کہ مسلمان ہو جائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کر دیں گے پھر جب عذاب ہٹ جاتا تو وعدہ شکنی کرتے اور قول توڑ دیتے۔ اور آیت «فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْاقَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ» الخ [7-الأعراف:133-135] میں اس پورے واقعہ کو بیان فرمایا ہے۔