قرآن مجيد

سورة الزخرف
أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ[21]
یا کیاہم نے انھیں اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے؟ پس وہ اسے مضبوطی سے تھامنے والے ہیں۔[21]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 21، 22، 23، 24، 25،

باب

جو لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے ہیں ان کا بے دلیل ہونا بیان فرمایا جا رہا ہے کہ ” کیا ہم نے ان کے اس شرک سے پہلے انہیں کوئی کتاب دے رکھی ہے؟ جس سے وہ سند لاتے ہوں۔ “ یعنی حقیقت میں ایسا نہیں جیسے فرمایا «‏‏‏‏اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطٰنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِهٖ يُشْرِكُوْنَ» [30-الروم:35] ‏‏‏‏، یعنی ” کیا ہم نے ان پر ایسی دلیل اتاری ہے جو ان سے شرک کو کہے؟ “ یعنی ایسا نہیں ہے۔

پھر فرماتا ہے ” یہ تو نہیں، بلکہ شرک کی سند ان کے پاس ایک اور صرف ایک ہے اور وہ اپنے باپ دادوں کی تقلید کہ وہ جس دین پر تھے ہم اسی پر ہیں اور رہیں گے۔ “

امت سے مراد یہاں دین ہے اور آیت «‏‏‏‏إِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَ‌بُّكُمْ فَاعْبُدُونِ» [21-الأنبياء:92] ‏‏‏‏، میں بھی امت سے مراد دین ہی ہے ساتھ ہی کہا کہ ہم انہی کی راہوں پر چل رہے ہیں پس ان کے بے دلیل دعوے کو سنا کر اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” یہی روش ان سے اگلوں کی بھی رہی۔ ان کا جواب بھی نبیوں کی تعلیم کے مقابلہ میں یہی تقلید کو پیش کرنا تھا۔“

اور جگہ ہے آیت «كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ» [51-الذاريات:52] ‏‏‏‏ یعنی ” ان سے اگلوں کے پاس بھی جو رسول آئے ان کی امتوں نے انہیں بھی جادوگر اور دیوانہ بتایا۔“

پس گویا کہ اگلے پچھلوں کے منہ میں یہ الفاظ بھر گئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سرکشی میں یہ سب یکساں ہیں پھر ارشاد ہے کہ ” گو یہ معلوم کر لیں اور جان لیں کہ نبیوں کی تعلیم باپ دادوں کی تقلید سے بدرجہا بہتر ہے تاہم ان کا برا قصد اور ضد اور ہٹ دھرمی انہیں حق کی قبولیت کی طرف نہیں آنے دیتی۔ “

پس ایسے اڑیل لوگوں سے ہم بھی ان کی باطل پرستی کا انتقام نہیں چھوڑتے مختلف صورتوں سے انہیں تہ و بالا کر دیا کرتے ہیں ان کا قصہ مذکور و مشہور ہے غور و تامل کے ساتھ دیکھ پڑھ لو اور سوچ سمجھ لو کہ کس طرح کفار برباد کئے جاتے ہیں اور کس طرح مومن نجات پاتے ہیں۔