قرآن کی قسم کھائی جو واضح ہے جس کے معانی روشن ہیں۔ جس کے الفاظ نورانی ہیں، جو سب سے زیادہ فصیح و بلیغ عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ یہ اس لیے کہ لوگ سوچیں سمجھیں اور وعظ و پند نصیحت و عبرت حاصل کریں۔ ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے جیسے اور جگہ ہے «بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ» [26-الشعراء:195] ” عربی واضح زبان میں اسے نازل فرمایا ہے۔ “
اس کی شرافت و مرتبت جو عالم بالا میں ہے اسے بیان فرمایا تا کہ زمین والے اس کی منزلت و توقیر معلوم کر لیں۔ فرمایا کہ ” یہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ “ «لَدَيْنَا» سے مراد ہمارے پاس۔ «لَعَلِيٌّ» سے مراد مرتبے والا عزت ولا شرافت اور فضیلت والا ہے۔ «حَكِيمٌ» سے مراد محکم، مضبوط جو باطل کے ملنے اور ناحق سے خلط ملط ہو جانے سے پاک ہے۔
اور آیت میں اس پاک کلام کی بزرگی کا بیان ان الفاظ میں ہے آیت «اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ» الخ [56-الواقعة:77] ، یعنی ” یہ قرآن کریم لوح محفوظ میں درج ہے اسے بجز پاک فرشتوں کے اور کوئی ہاتھ لگا نہیں پاتا یہ رب العالمین کی طرف سے اترا ہوا ہے۔ “
اور جگہ ہے آیت «كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ» [80-عبس:16-11] ، ” قرآن نصیحت کی چیز ہے جس کا جی چاہے اسے قبول کرے وہ ایسے صحیفوں میں سے ہے جو معزز ہیں بلند مرتبہ ہیں اور مقدس ہیں جو ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو ذی عزت اور پاک ہیں۔ “
ان دونوں آیتوں سے علماء نے استنباط کیا ہے کہ بے وضو قرآن کریم کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیئے جیسے کہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے بشرطیکہ وہ صحیح ثابت ہو جائے۔ اس لیے کہ عالم بالا میں فرشتے اس کتاب کی عزت و تعظیم کرتے ہیں جس میں یہ قرآن لکھا ہوا ہے۔ پس اس عالم میں ہمیں بطور اولیٰ اس کی بہت زیادہ تکریم و تعظیم کرنی چاہیئے کیونکہ یہ زمین والوں کی طرف ہی بھیجا گیا ہے اور اس کا خطاب انہی سے ہے تو انہیں اس کی بہت زیادہ تعظیم اور ادب کرنا چاہیئے اور ساتھ ہی اس کے احکام کو تسلیم کر کے ان پر عامل بن جانا چاہیئے کیونکہ رب کا فرمان ہے کہ یہ ہمارے ہاں ام الکتاب میں ہے اور بلند پایہ اور باحکمت ہے۔
اس کے بعد کی آیت کے ایک معنی تو یہ کئے گئے ہیں کہ ” کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ باوجود اطاعت گذاری اور فرمانبرداری نہ کرنے کے ہم تم کو چھوڑ دیں گے اور تمہیں عذاب نہ کریں گے؟ “
دوسرے معنی یہ ہیں کہ ” اس امت کے پہلے گزرنے والوں نے جب اس قرآن کو جھٹلایا اسی وقت اگر یہ اٹھا لیا جاتا تو تمام دنیا ہلاک کر دی جاتی۔ “ لیکن اللہ کی وسیع رحمت نے اسے پسند نہ فرمایا اور برابر بیس سال سے زیادہ تک یہ قرآن اترتا رہا اس قول کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی لطف و رحمت ہے کہ وہ نہ ماننے والوں کے انکار اور بد باطن لوگوں کی شرارت کی وجہ سے انہیں نصیحت و موعظت کرنی نہیں چھوڑتا تاکہ جو ان میں نیکی والے ہیں وہ درست ہو جائیں اور جو درست نہیں ہوتے ان پر حجت تمام ہو جائے۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ ” آپ اپنی قوم کی تکذیب پر گھبرائیں نہیں۔ صبر و برداشت کیجئے۔ ان سے پہلے کی جو قومیں تھیں ان کے پاس بھی ہم نے اپنے رسول و نبی بھیجے تھے اور انہیں ہلاک کر دیا وہ آپ کے زمانے کے لوگوں سے زیادہ زور اور اور باہمت اور توانا ہاتھوں والے تھے۔ “
جیسے اور آیت میں ہے «أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً» [40-غافر:82] ، ” کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں؟ کہ ان سے پہلے کے لوگوں کا کیا انجام ہوا؟ جو ان سے تعداد میں اور قوت میں بہت زیادہ بڑھے ہوئے تھے۔ “ اور بھی آیتیں اس مضمون کی بہت سی ہیں۔
پھر فرماتا ہے ” اگلوں کی مثالیں گزر چکیں “ یعنی عادتیں، سزائیں، عبرتیں۔ جیسے اس سورت کے آخر میں فرمایا ہے «فَجَعَلْنَاهُمْ سَلَفًا وَمَثَلًا لِّلْآخِرِينَ» [43-الزخرف:56] ” ہم نے انہیں گذرے ہوئے اور بعد والوں کے لیے عبرتیں بنا دیا۔“
اور جیسے فرمان ہے آیت «سُـنَّةَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا» [40-غافر:85] ، یعنی ” اللہ کا طریقہ جو اپنے بندوں میں پہلے سے چلا آیا ہے اور تو اسے بدلتا ہوا نہ پائے گا۔“