اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ” مال صحت وغیرہ بھلائیوں کی دعاؤں سے تو انسان تھکتا ہی نہیں اور اگر اس پر کوئی بلا آ پڑے یا فقر و فاقہ کا موقعہ آ جائے تو اس قدر ہراساں اور مایوس ہو جاتا ہے کہ گویا اب کسی بھلائی کا منہ نہیں دیکھے گا، اور اگر کسی برائی یا سختی کے بعد اسے کوئی بھلائی اور راحت مل جائے تو کہنے بیٹھ جاتا ہے کہ اللہ پر یہ تو میرا حق تھا، میں اسی کے لائق تھا، اب اس نعمت پر پھولتا ہے، اللہ کو بھول جاتا ہے اور صاف منکر بن جاتا ہے۔ قیامت کے آنے کا صاف انکار کر جاتا ہے۔ مال و دولت راحت آرام اس کے کفر کا سبب بن جاتا ہے “۔
جیسے ایک اور آیت میں ہے «كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى أَن رَّآهُ اسْتَغْنَىٰ» [96-العلق:7،6] یعنی ” انسان نے جہاں آسائش و آرام پایا وہیں اس نے سر اٹھایا اور سرکشی کی “۔
پھر فرماتا ہے کہ ” اتنا ہی نہیں بلکہ اس بداعمالی پر بھلی امیدیں بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بالفرض اگر قیامت آئی بھی اور میں وہاں اکٹھا بھی کیا گیا تو جس طرح یہاں سکھ چین میں ہوں وہاں بھی ہوں گا “۔ غرض انکار قیامت بھی کرتا ہے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو مانتا بھی نہیں اور پھر امیدیں لمبی باندھتا ہے اور کہتا ہے کہ جیسے میں یہاں ہوں ویسے ہی وہاں بھی رہوں گا۔
پھر ان لوگوں کو ڈراتا ہے کہ ” جن کے یہ اعمال و عقائد ہوں انہیں ہم سخت سزا دیں گے “۔
پھر فرماتا ہے کہ ” جب انسان اللہ کی نعمتیں پا لیتا ہے تو اطاعت سے منہ موڑ لیتا ہے اور ماننے سے جی چراتا ہے “۔ جیسے فرمایا «فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ» [51-الذاريات:39] ” اور جب اسے کچھ نقصان پہنچتا ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے بیٹھ جاتا ہے “۔ ”عریض کلام“ اسے کہتے ہیں جس کے الفاظ بہت زیادہ ہوں اور معنی بہت کم ہوں۔ اور جو کلام اس کے خلاف ہو یعنی الفاظ تھوڑے ہوں اور معنی زیادہ ہوں تو اسے ”وجیز کلام“ کہتے ہیں۔ وہ بہت کم اور بہت کافی ہوتا ہے۔
اسی مضمون کو اور جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے «وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِهٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاىِٕمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» [10-یونس:12] ، ” جب انسان کو مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر لیٹ کر اور بیٹھ کر اور اکٹھے ہو کر غرض ہر وقت ہم سے مناجات کرتا رہتا ہے اور جب وہ تکلیف ہم دور کر دیتے ہیں تو اس بےپرواہی سے چلا جاتا ہے کہ گویا اس مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا “۔