تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 23، 24، 25، 26، 27،
فرعون کا بدترین حکم ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے کے لیے سابقہ رسولوں کے قصے بیان فرماتا ہے کہ جس طرح انجام کار فتح و ظفر ان کے ساتھ رہی اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کفار سے کوئی اندیشہ نہ کیجئے۔ میری مدد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے۔ انجام کار آپ ہی کی بہتری اور برتری ہو گی جیسے کہ موسیٰ بن عمران علیہ السلام کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہے کہ ہم نے انہیں دلائل و براہین کے ساتھ بھیجا، قبطیوں کے بادشاہ فرعون کی طرف جو مصر کا سلطان تھا اور ہامان کی طرف جو اس کا وزیر اعظم تھا اور قارون کی طرف جو اس کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند تھا اور تاجروں کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ ان بدنصیبوں نے اللہ کے اس زبردست رسول کو جھٹلایا اور ان کی توہین کی اور صاف کہہ دیا کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے۔ یہی جواب سابقہ امتوں کے بھی انبیاء علیہم السلام کو دیتے رہے۔
جیسے ارشاد ہے «كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ أَتَوَاصَوْا بِهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ» [ 51- الذاريات: 53، 52 ] ، یعنی اس طرح ان سے پہلے بھی جتنے رسول آئے سب سے ان کی قوم نے یہی کہا کہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔ کیا انہوں نے اس پر کوئی متفقہ تجویز کر رکھی ہے؟ نہیں بلکہ دراصل یہ سب کے سب سرکش لوگ ہیں، جب ہمارے رسول موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس حق لائے اور انہوں نے اللہ کے رسول کو ستانا اور دکھ دینا شروع کیا اور فرعون نے حکم جاری کر دیا کہ اس رسول علیہ السلام پر جو ایمان لائے ہیں ان کے ہاں جو لڑکے ہیں انہیں قتل کر دو اور جو لڑکیاں ہوں انہیں زندہ چھوڑ دو، اس سے پہلے بھی وہ یہی حکم جاری کر چکا تھا۔ اس لیے کہ اسے خوف تھا کہ کہیں موسیٰ علیہ السلام پیدا نہ ہو جائیں یا اس لیے کہ بنی اسرائیل کی تعداد کم کر دے اور انہیں کمزور اور بےطاقت بنا دے اور ممکن ہے دونوں مصلحتیں سامنے ہوں اور ان کی گنتی نہ بڑھے اور یہ پست و ذلیل رہیں بلکہ انہیں خیال ہو کہ ہماری اس مصیبت کا باعث موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ علیہ السلام کے آنے سے پہلے بھی ہمیں ایذاء دی گئی اور آپ علیہ السلام کے تشریف لانے کے بعد بھی ہم ستائے گئے۔ آپ نے جواب دیا کہ «قَالُوا أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِيَنَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۚ قَالَ عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ» [ 7-الاعراف: 129 ] تم جلدی نہ کرو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کو برباد کر دے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنائے پھر دیکھے۔ کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟
حضرت قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ فرعون کا یہ حکم دوبارہ تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کا فریب اور ان کی یہ پالیسی کہ بنی اسرائیل فنا ہو جائیں بے فائدہ اور فضول تھی۔
فرعون کا ایک بدترین قصد بیان ہو رہا ہے کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنی قوم سے کہا مجھے چھوڑو میں موسیٰ علیہ السلام کو قتل کر ڈالوں گا وہ اگرچہ اپنے اللہ کو بھی اپنی مدد کے لیے پکارے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر اسے زندہ چھوڑا گیا تو وہ تمہاے دین کو بدل دے گا تمہاری عادت و رسومات کو تم سے چھڑا دے گا اور زمین میں ایک فساد پھیلا دے گا۔ اسی لیے عرب میں یہ مثل مشہور ہو گئی «صار فرعون مذكرا» یعنی فرعون بھی واعظ بن گیا۔ بعض قرأتوں میں بجائے ان یطھر کے یطھر ہے، موسیٰ علیہ السلام کو جب فرعون کا یہ بد ارادہ معلوم ہوا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا میں اس کی اور اس جیسے لوگوں کی برائی سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ اے میرے مخاطب لوگو! میں ہر اس شخص کی ایذاء رسانی سے جو حق سے تکبر کرنے والا اور قیامت کے دن پر ایمان نہ رکھنے ولا ہو، اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قوم سے خوف ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے «اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ وَنَدْرَأُ بِكَ فِي نُحُورِهِمْ» یعنی اے اللہ ان کی برائی سے ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اور ہم تجھ پر ان کے مقابلے میں بھروسہ کرتے ہیں۔ [سنن ابوداود:1537،قال الشيخ الألباني:صحیح]