قرآن مجيد

سورة ص
وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ[38]
اور کچھ اوروں کو بھی (تابع کر دیا) جو بیڑیوں میں اکٹھے جکڑے ہوئے تھے۔[38]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 34، 35، 36، 37، 38، 39، 40،

سلیمان علیہ السلام کا تفصیلی تذکرہ ٭٭

ہم نے سلیمان علیہ السلام کا امتحان لیا اور ان کی کرسی پر ایک جسم ڈال دیا، یعنی شیطان پھر وہ اپنے تخت و تاج کی طرف لوٹ آئے اس شیطان کا نام صخر تھا یا آصف تھا یا صرو تھا یا حقیق تھا۔ یہ واقعہ اکثر مفسرین نے ذکر کیا ہے کسی نے تفصیل کے ساتھ، کسی نے اختصار کے ساتھ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام کو بیت المقدس کی تعمیر کا اس طرح حکم ہوا کہ لوہے کی آواز بھی نہ سنی جائے۔ آپ نے ہر چند تدبیریں کیں، لیکن کارگر نہ ہوئیں۔ پھر آپ نے سنا کہ سمندر میں ایک شطان ہے جس کا نام صخر ہے وہ البتہ ایسی ترکیب بتا سکتا ہے آپ علیہ السلام نے حکم دیا کہ اسے کسی طرح لاؤ۔ ایک دریا سمندر میں ملتا تھا ہر ساتویں دن اس میں لبالب پانی آ جاتا تھا اور یہی پانی یہ شیطان پیتا تھا۔ اس کا پانی نکال دیا گیا اور بالکل خالی کر کے پانی کو بند کر کے اس کے آنے والے دن اسے شراب سے پر کر دیا گیا جب شیطان آیا اور یہ حال دیکھا تو کہنے لگا یہ تو مزے کی چیز ہے لیکن عقل کی دشمن جہالت کو ترقی دینے والی چیز ہے۔ چنانچہ وہ پیاسا ہی چلا گیا۔ جب پیاس کی شدت ہوئی تو مجبوراً یہ سب کچھ کہتے ہوئے پینا ہی پڑا۔ اب عقل جاتی رہی اور اسے سلیمان کی انگوٹھی دکھائی گئی یا مونڈھوں کے درمیان سے مہر لگا دی گئی۔ یہ بے بس ہو گیا سلیمان علیہ السلام کی حکومت اسی انگوٹھی کی وجہ سے تھی۔ جب یہ سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے اسے یہ کام سر انجام دینے کا حکم دیا یہ ہدہد کے انڈے لے آیا اور انہیں جمع کر کے ان پر شیشہ رکھ دیا۔ ہدہد آیا اس نے اپنے انڈے دیکھے چاروں طرف گھوما لیکن دیکھا کہ ہاتھ نہیں آسکتے اڑ کر واپس چلا گیا اور الماس لے آیا اور اسے اس شیشے پر رکھ کر شیشے کو کاٹنا شروع کر دیا آخر وہ کٹ گیا اور ہدہد اپنے انڈے لے گیا اور اس الماس کو بھی لے لیا گیا اور اسی سے پتھر کاٹ کاٹ کر عمارت شروع ہوئی۔

سلیمان علیہ السلام جب بیت الخلاء میں یا حمام میں جاتے تو انگوٹھی اتار جاتے ایک دن حمام میں جانا تھا اور یہ شیطان آپ کے ساتھ تھا آپ علیہ السلام اس وقت فرضی غسل کے لیے جا رہے تھے انگوٹھی اسی کو سونپ دی اور چلے گئے اس نے انگوٹھی سمندر میں پھینک دی اور شیطان پر سلیمان علیہ السلام کی شکل ڈال دی گئی اور آپ سے تخت و تاج چھن گیا۔ سب چیزوں پر شیطان نے قبضہ کر لیا سوائے آپ کی بیویوں کے۔ اب اس سے بہت سی غیر معروف باتیں ظہور میں آنے لگیں اس زمانہ میں ایک صاحب تھے جو ایسے ہی تھے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فاروق رضی اللہ عنہ۔ اس نے کہا آزمائش کرنی چاہیئے مجھے تو یہ شخص سلیمان علیہ السلام معلوم نہیں ہوتا۔ چنانچہ ایک روز اس نے کہا کیوں جناب اگر کوئی شخص رات کو جنبی ہو جائے اور موسم ذرا ٹھنڈا ہو اور وہ سورج طلوع ہونے تک غسل نہ کرے تو کوئی حرج تو نہیں؟ اس نے کہا ہرگز نہیں۔ چالیس دن تک یہ تخت سلیمان علیہ السلام پر رہا پھر آپ کی مچھلی کے پیٹ سے انگوٹھی مل گئی ہاتھ میں ڈالتے ہی پھر تمام چیزیں آپ کی مطیع ہو گئیں۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔

حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام کی ایک سو بیویاں تھیں آپ کو سب سے زیادہ اعتبار ان میں سے ایک بیوی پر تھا جن کا نام جراوہ تھا۔ جب جنبی ہونے یا پاخانے جاتے تو اپنی انگوٹھی انہی کو سونپ جاتے۔ ایک مرتبہ آپ پاخانے گئے پیچھے سے ایک شیطان آپ ہی کی صورت بنا کر آیا اور بیوی صاحبہ سے انگوٹھی طلب کی آپ نے دے دی یہ آتے ہی تخت پر بیٹھ گیا جب سلیمان آئے اور انگوٹھی طلب کی تو بیوی صاحبہ نے فرمایا آپ انگوٹھی تو لے گئے۔ آپ سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے نہایت پریشان حال سے محل سے نکل گئے اس شیطان نے چالیس دن تک حکومت کی لیکن احکام کی تبدیلی کو دیکھ کر علماء نے سمجھ لیا کہ یہ سلیمان نہیں۔

چنانچہ ان کی جماعت آپ علیہ السلام کی بیویوں کے پاس آئی اور ان سے کہا یہ کیا معاملہ ہے ہمیں سلیمان کی ذات میں شک پڑ گیا۔ اگر یہ سچ مچ سلیمان ہے تو اس کی عقل جاتی رہی ہے یا یہ کہ یہ سلیمان ہی نہیں۔ ورنہ ایسے خلاف شرع احکام نہ دیتا۔ عورتیں یہ سن کر رونے لگیں۔ یہ یہاں سے واپس آ گئے اور تخت کے اردگرد اسے گھیر کر بیٹھ گئے اور تورات کھول کر اس کی تلاوت شروع کر دی۔ یہ خبیث شیطان کلام اللہ سے بھاگا اور انگوٹھی سمندر میں پھینک دی جسے ایک مچھلی نگل گئی۔ سلیمان علیہ السلام یونہی اپنے دن گزارتے تھے۔

ایک مرتبہ سمندر کے کنارے نکل گئے بھوک بہت لگی ہوئی تھی ماہی گیروں کو مچھلیاں پکڑتے ہوئے دیکھ کر ان کے پاس آ کر ان سے ایک مچھلی مانگی اور اپنا نام بھی بتایا، اس پر بعض لوگوں کو بڑا طیش آیا کہ دیکھو بھیک مانگنے والا اپنے تئیں سلیمان بتاتا ہے۔ انہوں نے آپ علیہ السلام کو مارنا پیٹنا شروع کیا آپ علیہ السلام زخمی ہو کر کنارے جا کر اپنے زخم کا خون دھونے لگے۔ بعض ماہی گیروں کو رحم آ گیا کہ ایک سائل کو خواہ مخواہ مارا۔ جاؤ بھئی اسے دو مچھلیاں دے آؤ بھوکا ہے بھون کھائے گا۔ چنانچہ وہ مچھلیاں آپ کو دے آئے بھوک کی وجہ سے آپ اپنے زخم کو اور خون کو تو بھول گئے اور جلدی سے مچھلی کا پیٹ چاک کرنے بیٹھ گئے۔ قدرت اللہ سے اس کے پیٹ سے وہ انگوٹھی نکلی آپ علیہ السلام نے اللہ کی تعریف بیان کی اور انگوٹھی انگلی میں ڈالی اس وقت پرندوں نے آ کر آپ پر سایہ کر لیا اور لوگوں نے آپ علیہ السلام کو پہچان لیا اور آپ سے معذرت کرنے لگے آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ سب امر اللہ تھا اللہ کی طرف سے ایک امتحان تھا۔ آپ آئے اپنے تخت پر بیٹھ گئے اور حکم دیا کہ اس شیطان کو جہاں بھی وہ ہو گرفتار کر لاؤ چنانچہ اسے قید کر لیا گیا آپ نے اسے ایک لوہے کے صندوق میں بند کیا اور قفل لگا کر اس پر اپنی مہر لگا دی اور سمندر میں پھنکوا دیا جو قیامت تک وہیں قید رہے گا۔ اس کا نام حقیق تھا۔

آپ کی یہ دعا کہ مجھے ایسا ملک عطا فرمایا جائے جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو یہ بھی پوری ہوئی اور آپ کے تابع ہوائیں کر دی گئیں۔ مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک شیطان سے جس کا نام آصف تھا ایک مرتبہ سلیمان علیہ السلام نے پوچھا کہ تم لوگوں کو کس طرح فتنے میں ڈالتے ہو؟ اس نے کہا ذرا مجھے انگوٹھی دکھاؤ میں ابھی آپ کو دکھا دیتا ہوں آپ نے انگوٹھی دے دی اس نے اسے سمندر میں پھینک دیا تخت و تاج کا مالک بن بیٹھا اور آپ کے لباس میں لوگوں کو راہ اللہ سے ہٹانے لگا۔یاد رہے کہ یہ سب واقعات بنی اسرائیل کے بیان کردہ ہیں

اور ان سب سے زیادہ منکر واقعہ وہ ہے۔ جو ابن ابی حاتم میں ہے جس کا اوپر بیان ہوا۔ جس میں آپ کی بیوی صاحبہ جراوہ کا ذکر ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ آخر نبوت یہاں تک پہنچی تھی کہ لڑکے آپ کو پتھر مارتے تھے۔ آپ علیہ السلام کی بیویوں سے جب علماء نے معاملہ کی تفتیش کی تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہمیں بھی اس کے سلیمان ہونے سے انکار ہے کیونکہ وہ حالت حیض میں ہمارے پاس آتا ہے۔ شیطان کو جب یہ معلوم ہو گیا کہ راز کھل گیا ہے تو اس نے جادو اور کفر کی کتابیں لکھوا کر کرسی تلے دفن کر دیا اور پھر لوگوں کے سامنے انہیں نکلوا کر ان سے کہا دیکھو ان کتابوں کی بدولت سلیمان تم پر حکومت کر رہا تھا چنانچہ لوگوں نے آپ کو کافر کہنا شروع کر دیا۔ سلیمان سمندر کے کنارے مزدوری کرتے تھے ایک مرتبہ ایک شخص نے بہت سی مچھلیاں خریدیں مزدور کو بلایا آپ پہنچے اس نے کہا یہ اٹھالو پوچھا مزدوری کیا دو گے؟ اس نے کہا اس میں سے ایک مچھلی تمہیں دے دوں گا آپ نے ٹوکرا سر پر رکھا اس کے ہاں پہنچایا اس نے ایک مچھلی دے دی آپ علیہ السلام نے اس کا پیٹ چاک کیا پیٹ چاک کرتے ہی وہ انگوٹھی نکل پڑی پہنتے ہی کل شیاطین جن انسان پھر تابع ہو گئے اور جھرمٹ باندھ کر حاضر ہو گئے آپ نے ملک پر قبضہ کیا اور اس شیطان کو سخت سزا دی۔ پس ثم اناب سے مراد شیطان جو مسلط کیا گیا تھا اس کا لوٹنا ہے۔

اس کی اسناد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ تک ہے۔ ہے تو قوی لیکن یہ ظاہر ہے کہ اسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اہل کتاب سے لیا ہے، یہ بھی اس وقت جبکہ اسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول مان لیں۔ اہل کتاب کی ایک جماعت سلیمان علیہ السلام کو نہیں مانتی تھی تو عجب نہیں کہ یہ بیہودہ قصہ اسی خبیث جماعت کا گھڑا ہوا ہو۔ اس میں تو وہ چیزیں بھی ہیں جو بالکل ہی منکر ہیں خصوصاً اس شیطان کا آپ کی عورتوں کے پاس جانا اور آئمہ نے بھی ایسے ہی قصے بیان تو کئے ہیں لیکن اس بات کا سب نے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ جن ان کے پاس نہیں جا سکا اور نبی کے گھرانے کی عورتوں کی عصمت و شرافت کا تقاضا بھی یہی ہے اور بھی بہت سے لوگوں نے ان واقعات کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن سب کی اصل یہی ہے کہ وہ بنی اسرائیل اور اہل کتاب سے لیے گئے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

شیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں آپ علیہ السلام نے اپنی انگوٹھی عسقلان میں پائی تھی اور بیت المقدس تک تواضعاً آپ علیہ السلام پیدل چلے تھے۔ امام ابن بی حاتم نے صفت سلیمان علیہ السلام میں سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ سے ایک عجیب خبر روایت کی ہے۔ ابواسحاق مصری کہتے ہیں کہ جب «اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ» [ 89- الفجر: 7 ] ‏‏‏‏ کے قصے سے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے فراغت حاصل کی تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ابواسحاق آپ سلیمان علیہ السلام کی کرسی کا ذکر بھی کیجئے فرمایا کہ وہ ہاتھی دانت کی تھی اور یاقوت زبرجد اور لولو سے مرصع تھی اور اس کے چاروں طرف سونے کے کھجور کے درخت بنے ہوئے تھے جن کے خوشے بھی موتیوں کے تھے ان میں سے جو دائیں جانب تھے ان کے سرے پر سونے کے مور تھے اور بائیں طرف والوں پر سونے کے گدھ تھے۔ اس کرسی کے پہلے درجے پر دائیں جانب سونے کے دو درخت صنوبر کے تھے اور بائیں جانب سونے کے دو شیر بنے ہوئے تھے۔ ان کے سروں پر زبر جد کے دوستون تھے اور کرسی کے دونوں جانب انگور کی سنہری بیلیں تھیں جو کرسی کو ڈھانپے ہوئے تھیں اس کے خوشے بھی سرخ موتی کے تھے پھر کرسی کے اعلیٰ درجے پر دو شیر بہت بڑے سونے کے بنے ہوئے تھے جن کے اندر خول تھا ان میں مشک و عنبر بھرا رہتا تھا۔ جب سلیمان علیہ السلام کرسی پر آتے تو یہ شیر حرکت کرتے اور ان کے گھومنے سے ان کے اندر سے مشک و عنبر چاروں طرف چھڑک دیا جاتا پھر دو منبر سونے کے بچھا دئے جاتے۔ ایک آپ کے وزیر کا اور ایک اس وقت کے سب سے بڑے عالم کا۔ پھر کرسی کے سامنے ستر منبر سونے کے اور بچھائے جاتے جن پر بنو اسرائیل کے قاضی ان کے علماء اور ان کے سردار بیٹھتے۔ ان کے پیچھے پینتیس منبر سونے کے اور ہوتے تھے جو خالی رہا کرتے تھے۔ سلیمان علیہ السلام جب تشریف لاتے پہلے زینے پر قدم رکھتے ہی کرسی ان تمام چیزوں سمیت گھوم جاتی شیر اپن داہنا قدم آگے بڑھا دیتا اور گدھ اپنا بایاں پر پھیلا دیتا۔ جب دوسرے درجے پر قدم رکھتے تو شیر اپنا بایاں پاؤں پھیلا دیتا اور گدھ اپنا دایاں پر جب آپ تیسرے درجے پر چڑھ جاتے اور کرسی پر بیٹھ جاتے تو ایک بڑا گدھ آپ کا تاج لے کر آپ کے سر پر رکھتا پھر کرسی زور زور سے گھومتی۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا آخر اس کی کیا وجہ؟ فرمایا وہ ایک سونے کی لاٹ پر تھی جسے صخر جن نے بنایا تھا۔ اس کے گھومتے ہی نیچے والے مور گدھ وغیرہ سب اوپر آ جاتے اور سر جھکاتے پر پھڑ پھڑاتے جس سے آپ کے جسم پر مشک و عنبر کا چھڑکاؤ ہو جاتا پھر ایک سونے کا کبوتر تورات اٹھا کر آپ کے ہاتھ میں دیتا جسے آپ تلاوت فرماتے۔ لیکن یہ روایت بالکل غریب ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ایسا ملک دے کہ مجھ سے کوئی اور چھین نہ سکے جیسے کہ اس جسم کا واقعہ ہوا جو آپ کی کرسی پر ڈال دیا گیا تھا۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ دوسروں کے لیے ایسے ملک کے نہ ملنے کی دعا کرتے ہوں۔ لیکن جن بعض لوگوں نے یہ معنی لیے ہیں وہ کچھ ٹھیک نظر نہیں آتے، بلکہ صحیح مطلب یہی ہے کہ آپ علیہ السلام کی دعا کا یہی مطلب تھا کہ مجھے ایسا ملک اور سلطنت دی جائے کہ میرے بعد پھر کسی اور شخص کو ایسی سلطنت نہ ملے۔ یہی آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے اور یہی احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے۔

صحیح بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ایک سرکش جن نے گزشتہ شب مجھ پر زیادتی کی اور میری نماز بگاڑ دینا چاہی لیکن اللہ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے اس ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح تم سب اسے دیکھو لیکن اسی وقت مجھے میرے بھائی سلیمان علیہ الصلوۃ و السلام کی دعا یاد آ گئی۔ راوی حدیث روح رحمہ اللہ فرماتے ہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ذلیل و خوار کر کے چھوڑ دیا۔ [صحیح بخاری:461] ‏‏‏‏

ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوئے تو ہم نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «اعوذ باللہ منک» پھر آپ نے تین بار فرمایا «‏‏‏‏العنک بلعنتہ اللہ» پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس طرح بڑھایا کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو لینا چاہتے ہیں۔ جب فارغ ہوئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دونوں باتوں کی وجہ پوچھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا دشمن ابلیس آگ لے کر میرے منہ میں ڈالنے کے لیے آیا تو میں نے تین مرتبہ اعوذ پڑھی پھر تین مرتبہ اس پر لعنت بھیجی لیکن وہ پھر بھی نہ ہٹا پھر میں نے چاہا کہ اسے پکڑ کر باندھ دوں تاکہ مدینے کے لڑکے اس سے کھیلیں اگر ہمارے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو میں یہی کرتا۔ [صحیح مسلم:542-40] ‏‏‏‏

حضرت عطابن یزید لیثی رحمہ اللہ نماز پڑھ رہے تھے جو ابوعبیدہ نے ان کے سامنے سے گذرنا چاہا انہوں نے انہیں اپنے ہاتھ سے روک دیا پھر فرمایا مجھ سے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھا رہے تھے یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے قرأت آپ پر خلط ملط ہو گئی فارغ ہو کر فرمایا کاش تم دیکھتے کہ میں نے ابلیس کو پکڑ لیا تھا اور اس قدر اس کا گلا گھونٹا کہ اس کے منہ کی جھاگ میری شہادت کی اور بیج کی انگلی پر پڑی اگر میرے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح ہوتے اس مسجد کے ستون سے بندھا ہوا ہوتا اور مدینہ کے بچے اسے ستاتے تم سے جہاں تک ہو سکے اس بات کا خیال رکھو کہ نماز کی حالت میں تمہارے سامنے سے کوئی گذرنے نہ پائے۔ [سنن ابوداود:699،قال الشيخ الألباني:حسن ضعیف] ‏‏‏‏

مسند کی اور حدیث میں ہے ربیعہ بن یزید عبداللہ ویلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں میں سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے پاس طائف کے ایک باغ میں گیا جس کا ام وھط تھا آپ اس وقت ایک قریشی کا محاصرہ کئے ہوئے تھے جو زانی اور شرابی تھا۔ میں نے ان سے کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ یہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ جو ایک گھونٹ شراب پئے گا اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی توبہ قبول نہ فرمائے گا اور برا آدمی وہ ہے جو ماں کے پیٹ میں ہی برا ہو گیا ہے جو شخص صرف نماز ہی کی نیت سے بیت المقدس کی مسجد میں جائے تو وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے آج ہی پیدا ہوا۔ وہ شرابی جسے عبداللہ پکڑے ہوئے تھے وہ شراب کا ذکر سنتے ہی جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ گیا۔ اب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کسی کو حلال نہیں کہ میرے ذمے وہ بات کرے جو میں نے نہ کی۔

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں سنا ہے جو شخص شراب کا ایک گھونٹ بھی پی لے اس کی چالیس دن کی نماز نامقبول ہے۔ اگر وہ توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ پھر اگر دوبارہ لوٹے تو پھر چالیس دن تک کی نمازیں نامقبول ہیں پھر اگر توبہ کر لے تو توبہ مقبول ہے مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا کہ پھر اگر لوٹے گا تو یقیناً اللہ تعالیٰ اسے جہنمیوں کے بدن کا خون، پیپ، پیشاب وغیرہ قیامت کے دن پلائے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ اللہ عزوجل نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا جس پر وہ نور اس دن پڑ گیا وہ تو ہدایت والا ہو گیا اور جس تک وہ نور نہ پہنچا وہ بھٹک گیا۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل کے علم کے مطابق قلم چل چکا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کی جن میں سے دو تو انہیں مل گئیں اور ہمیں امید ہے کہ تیسری ہمارے لیے ہو [ 1 ] ‏‏‏‏ مجھے ایسا حکم دے جو تیرے حکم کے موافق ہو [ 2 ] ‏‏‏‏ مجھے ایسا ملک دے جو میرے بعد کسی کے لیے لائق نہ ہو۔ تیسری دعا یہ تھی کہ جو شخص اپنے گھر سے اس مسجد کی نماز کے ارادے ہی سے نکلے تو جب وہ لوٹے تو ایسا ہو جائے گویا آج پیدا ہوا پس ہمیں اللہ سے امید ہے کہ یہ ہمارے لیے اللہ نے دی ہو۔ [سنن ترمذي:1862،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

طبرانی میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ عزوجل نے داؤد علیہ السلام کو اپنے لیے ایک گھر بنانے کا حکم دیا داؤد علیہ السلام نے پہلے اپنا گھر بنا لیا اس پر وحی آئی کہ تم نے اپنا گھر میرے گھر سے پہلے بنایا آپ علیہ السلام نے عرض کیا پروردگار یہی فیصلہ کیا گیا تھا پھر مسجد بنانی شروع کی دیواریں پوری ہو گئیں تو اتفاقاً تہائی حصہ گر گیا آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جواب ملا کہ تو میرا گھر نہیں بنا سکتا۔ پوچھا کیوں؟ فرمایا اس لیے کہ تیرے ہاتھوں سے خون بہا ہے۔ عرض کیا اللہ تعالیٰ وہ بھی تیری ہی محبت میں فرمایا ہاں لیکن وہ میرے بندے تھے میں ان پر رحم کرتا ہوں۔ آپ علیہ السلام کو یہ کلام سن کر سخت پریشانی ہوئی۔ پھر وحی آئی کہ غمگین نہ ہو میں اسے تیرے لڑکے سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں پورا کراؤں گا۔ چنانچہ آپ علیہ السلام کے انتقال کے بعد سلیمان علیہ السلام نے اسے بنانا شروع کیا جب پورا کر چکے تو بڑی بڑی قربانیاں کیں اور ذبیحہ ذبح کئے اور بنو اسرائیل کو جمع کر کے خوب کھلایا پلایا اللہ کی وحی آئی کہ تو نے یہ سب کچھ میرے حکم کی تعمیل کی خوشی میں کیا ہے تو مجھ سے مانگ جو مانگے گا پائے گا۔ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ میرے تین سوال ہیں مجھے ایسا فیصلہ سمجھا جو تیرے فیصلے کے مطابق ہو اور ایسا ملک دے جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو اور جو اس گھر میں آئے صرف نماز کے ارادے سے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسا آزاد ہو جائے جیسے آج پیدا ہوا۔ ان میں سے دو چیزیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرما دیں اور مجھے امید ہے کہ تیسری بھی دے دی گئی ہو۔ [طبرانی کبیر:4477:ضعیف جدا] ‏‏‏‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ہر دعا کو ان لفظوں سے شروع فرماتے «سبحان اَلَّلہِ رَبِّـيَ العليِّ الأعلى الوهَّابِ» [مسند احمد:54/4:ضعیف] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ داؤد علیہ السلام کے انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام سے فرمایا مجھ سے اپنی حاجت طلب کرو آپ علیہ السلام نے عرض کیا اللہ تعالیٰ مجھے ایسا دل دے جو تجھ سے ڈرتا رہے جیسا کہ میرے والد کا دل تجھ سے خوف کیا کرتا تھا،اور میرے دل میں اپنی محبت ڈال دے جیسے کہ میرے والد کے دل میں تیری محبت تھی اس پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوا کہ میرا بندہ میری عین عطا کے وقت بھی مجھ سے ڈرا اور میری محبت طلب کرتا ہے مجھے اپنی قسم میں اسے اتنی بڑی سلطنت دوں گا جو اس کے بعد کسی کو نہ ملے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی ماتحتی میں ہوائیں کر دیں اور جنات کو بھی ان کا ماتحت بنا دیا۔ اور اسی قدر ملک و مال پر بھی، انہیں حساب قیامت سے آزاد کر دیا۔

ابن عساکر میں ہے کہ داؤد علیہ السلام نے دعا کی کہ باری تعالیٰ سلیمان کے ساتھ بھی اسی لطف و کرم سے پیش آنا جیسا آج لطف و کرم تیرا مجھ پر رہا تو وحی آئی کہ سلیمان سے کہہ دو وہ بھی اسی طرح میرا رہے جس طرح تو میرا تھا، تو میں بھی اس کے ساتھ ہو جاؤں گا جیسے کہ تیرے ساتھ تھا۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کی محبت میں آ کر ان خوبصورت پیارے وفادار تیز رو گھوڑوں کو کاٹ ڈالا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں ان کے عوض ان سے بہتر عطا فرمائے۔ یعنی ہوا کو ان کے تابع فرمان کر دیا جو مہینے بھر کی راہ کو صبح کی ایک گھڑی میں طے کر دیتی تھی اور اسی طرح شام کو جہاں کا ارادہ کرتے ذرا سی دیر میں پہنچا دیتی۔

جنات کو بھی سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا ان میں سے بعض بڑی اونچی لمبی سنگین پختہ عمارت کے بنانے کے کام سر انجام دیتے جو انسانی طاقت سے باہر تھا اور بعض غوطہٰ خور تھے جو سمندر کی تہ میں سے لولو جواہر اور دیگر قسم قسم کی نفیس و نادر چیزیں لا دیتے تھے۔ پھر اور کچھ تھے جو بھاری بھاری بیڑیوں میں جکڑے رہتے تھے۔ یہ یا تو وہ تھے جو حکومت سے سرتابی کرتے تھے یا کام کاج میں شرارت اور کمی کرتے تھے یا لوگوں کو ستاتے اور ایذاء دیتے تھے۔

یہ ہے ہماری مہربانی اور ہماری بخشش اور ہمارا انعام اور ہمارا عطیہ اب تجھے اختیار ہے جس سے جو چاہے سلوک کر سب بے حساب ہے کسی پر پکڑ نہیں۔ جو تیری زبان سے نکلے گا وہ حق ہو گا۔

صحیح حدیث میں ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا گیا کہ اگر چاہیں عبد و رسول رہیں یعنی جو حکم کیا جائے بجا لاتے رہیں اللہ کے فرمان کے مطابق تقسیم کرتے رہیں اور اگر چاہیں نبی اور بادشاہ بنا دیئے جائیں جسے چاہیں دیں جسے چاہیں نہ دیں اور اس کا کوئی حساب اللہ کے ہاں نہ لیا جائے تو آپ نے جبرائیل علیہ السلام سے مشورہ لیا اور آپ کے مشورے سے پہلی بات قبول فرمائی کیونکہ فضیلت کے لحاظ سے اولیٰ اور اعلیٰ وہی ہے۔ گو نبوت و سلطنت بھی بڑی چیز ہے۔ اسی لیے سلیمان علیہ السلام کا دنیوی عزو جاہ بیان کرتے ہی فرمایا کہ وہ دار آخرت میں بھی ہمارے پاس بڑے مرتبے اور بہترین بزرگی اور اعلیٰ تر قریب والا ہے۔