قرآن مجيد

سورة ص
كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ[3]
ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر دیا تو انھوں نے پکارا اوروہ بچ نکلنے کا وقت نہیں تھا۔[3]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3،

نصیحت دینے والا قرآن ٭٭

حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفسیر سورۃ البقرہ کے شروع میں گذر چکی ہے۔ یہاں قرآن کی قسم کھائی اور اسے پند و نصیحت کرنے والا فرمایا۔ کیونکہ اس کی باتوں پر عمل کرنے والے کی دین و دنیا دونوں سنور جاتی ہیں اور آیت میں ہے «‏‏‏‏لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ» [ 21- الأنبياء: 10 ] ‏‏‏‏ اس قرآن میں تمہارے لیے نصیحت ہے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قرآن شرافت میں بزرگ عزت و عظمت والا ہے۔ اب اس قسم کا جواب بعض کے نزدیک تو «اِنْ كُلٌّ اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ» [ 38- ص: 14 ] ‏‏‏‏، ہے۔ بعض کہتے ہیں «اِنَّ ذٰلِكَ لَحَــقٌّ تَخَاصُمُ اَهْلِ النَّارِ» [ 38- ص: 64 ] ‏‏‏‏، ہے لیکن یہ زیادہ مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا جواب اس کے بعد کی آیت ہے۔ ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو مختار بتاتے ہیں۔

بعض عربی داں کہتے ہیں اس کا جواب ص ہے اور اس لفظ کے معنی صداقت اور حقانیت کے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ پوری سورت کا خلاصہ اس قسم کا جواب ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

پھر فرماتا ہے یہ قرآن تو سراسر عبرت و نصیحت ہے مگر اس سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دل میں ایمان ہے کافر لوگ اس فائدے سے اس لیے محروم ہیں کہ وہ متکبر ہیں اور مخالف ہیں یہ لوگ اپنے سے پہلے اور اپنے جیسے لوگوں کے انجام پر نظر ڈالیں تو اپنے انجام سے ڈریں۔

اگلی امتیں اسی جرم پر ہم نے تہ و بالا کر دی ہیں عذاب آ پڑنے کے بعد تو بڑے روئے پیٹے خوب آہ و زاری کی لیکن اس وقت کی تمام باتیں بےسود ہیں۔ جیسے فرمایا «‏‏‏‏فَلَمَّآ اَحَسُّوْا بَاْسَنَآ اِذَا هُمْ مِّنْهَا يَرْكُضُوْنَ» ‏‏‏‏ [ 21- الأنبياء: 12 ] ‏‏‏‏ ہمارے عذابوں کو معلوم کر کے ان سے بچنا اور بھاگنا چاہا۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا؟

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اب بھاگنے کا وقت نہیں نہ فریاد کا وقت ہے، اس وقت کوئی فریاد رسی نہیں کر سکتا۔ چاہو جتنا چیخو چلاؤ محض بےسود ہے۔ اب توحید کی قبولیت غیر نافع، توبہ بیکار ہے۔ یہ بیوقت کی پکار ہے۔ «لَاتَ» معنی «‏‏‏‏لا» کے ہے۔ اس میں ت زائد ہے جیسے ثم میں بھی ت زیادہ ہوتی ہے اور ربت میں بھی۔ یہ مفصولہ ہے اور اس پر وقف ہے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ ت «حین» سے ملی ہوئی ہے یعنی «ولاتحین» ہے، لیکن مشہور اول ہی ہے۔ جمہور نے «حین» کو زبر سے پڑھا ہے۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ وقت آہو زاری کا وقت نہیں۔

بعض نے یہاں زیر پڑھنا بھی جائز رکھا ہے لغت میں «نوص» کہتے ہیں پیچھے ہٹنے کو اور «بوص» کہتے ہیں آگے بڑھنے کو پس مقصد یہ ہے کہ یہ وقت بھاگنے اور نکل جانے کا وقت نہیں واللہ الموافق۔