قرآن مجيد

سورة الصافات
لَكُنَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ[169]
تو ہم ضرور اللہ کے چنے ہوئے بندے ہوتے۔[169]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 161، 162، 163، 164، 165، 166، 167، 168، 169، 170،

فرشتوں کے اوصاف ٭٭

اللہ تعالیٰ مشرکوں سے فرما رہا ہے کہ ” تمہاری گمراہی اور شرک و کفر کی تعلیم وہی قبول کریں گے جو جہنم کے لیے پیدا کئے گئے ہوں۔ جو عقل سے خالی کانوں سے بہرے اور آنکھوں کے اندھے ہوں جو مثل چوپایوں کے بلکہ ان سے بھی بدرجہا بدتر ہوں “ [7-الأعراف:179] ‏‏‏‏۔

جیسے اور جگہ فرمایا ہے کہ ” اس سے وہی گمراہ ہو سکتے ہیں جو دماغ کے خالی اور باطل کے شیدائی ہوں “ [51-الذاريات:9-8] ‏‏‏‏۔ ازاں بعد فرشتوں کی برأت اور ان کی تسلی و رضا ایمان و اطاعت کا ذکر فرمایا کہ ” وہ خود کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے ایک مقرر جگہ اور ایک مقام عبادت مخصوص ہے جس سے نہ ہم ہٹ سکتے ہیں نہ اس میں کمی بیشی کر سکتے ہیں “۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ آسمان چر چرا رہا ہے اور واقع میں اسے چر چرانا بھی چاہیئے اس میں ایک قدم رکھنے جتنی جگہ بھی خالی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ رکوع سجدے میں پڑا ہوا نہ ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں آیتوں کی تلاوت کی [الدر المنشور للسیوطی:539/5:موضوع] ‏‏‏‏ ایک روایت میں آسمان دنیا کا لفظ ہے [سلسلة احادیث صحیحه البانی:1059،] ‏‏‏‏۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک بالشت بھر جگہ آسمانوں میں ایسی نہیں جہاں پر کسی نہ کسی فرشتے کے قدم یا پیشانی نہ ہو۔

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں پہلے تو مرد عورت ایک ساتھ نماز پڑھتے تھے لیکن اس آیت کے نزول کے بعد مردوں کو آگے بڑھا دیا گیا اور عورتوں کو پیچھے کر دیا گیا۔ ” اور ہم سب فرشتے صفہ بستہ عبادت اللہ کی کیا کرتے ہیں“۔ آیت «‏‏‏‏وَالصّــٰفّٰتِ صَفًّا» [ 37- الصافات: 1 ] ‏‏‏‏ کی تفسیر میں اس کا بیان گذر چکا ہے۔

ولید بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے تک نماز کی صفیں نہیں تھیں پھر صفیں مقرر ہو گئیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اقامت کے بعد لوگوں کی طرف منہ کر کے فرماتے تھے صفیں ٹھیک درست کرلو سیدھے کھڑے ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تم سے بھی فرشتوں کی طرف صف بندی چاہتا ہے۔ جیسے وہ فرماتے ہیں «وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ» [37-الصافات:165] ‏‏‏‏ اے فلاں آگے بڑھ اے فلاں پیچھے ہٹ۔‏‏‏‏ پھر آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر نماز شروع کرتے۔ [ابن ابی حاتم] ‏‏‏‏

صحیح مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہمیں تین فضیلتیں ایسی دی گئی ہیں جن میں اور کوئی ہمارے ساتھ نہیں۔ ہماری صفیں فرشتوں جیسی بنائی گئیں۔ ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنائی گئی اور ہمارے لیے زمین کی مٹی پاک کرنے والی بنائی گئی ۔ [صحیح مسلم:522] ‏‏‏‏

” ہم اللہ کی تسبیح اور پاکی بیان کرنے والے ہیں اس کی بزرگی اور بڑائی بیان کرتے ہیں۔ تمام نقصانوں سے اسے پاک مانتے ہیں۔ ہم سب فرشتے اس کے غلام ہیں اس کے محتاج ہیں اس کے سامنے اپنی پستی اور عاجزی کا اظہار کرنے والے ہیں “۔ پس یہ تینوں اوصاف فرشتوں کے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تسبیح کرنے والوں سے مراد نماز پڑھنے والے ہیں۔

اور آیت میں ہے «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا» [19-مريم:88] ‏‏‏‏، یعنی ” کفار نے کہا اللہ کی اولاد ہے “، اللہ اس سے پاک ہے البتہ فرشتے اس کے محترم بندے ہیں اس کے فرمان سے آگے نہیں بڑھتے، اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں وہ ان کا آگا پیچھا بخوبی جانتا ہے وہ کسی کی شفاعت کا بھی اختیار نہیں رکھتے بجز اس کے جس کے لیے رحمان راضی ہو وہ تو خوف اللہ سے تھرتھراتے رہتے ہیں۔

ان میں سے جو اپنے آپ کو لائق عبادت کہے ہم اسے جہنم میں جھونک دیں ظالموں کی سزا ہمارے ہاں یہی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، اس سے پہلے تو یہ کہتے تھے کہ اگر ہمارے پاس کوئی آ جائے جو ہمیں اللہ کی راہ کی تعلیم دیتا اور ہمارے سامنے اگلے لوگوں کے واقعات بطور نصیحت پیش کرتا اور ہمارے پاس کتاب اللہ لے آتا تو یقیناً ہم مخلص مسلمان بن جاتے۔

جیسے اور آیت میں ہے «‏‏‏‏وَأَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَهُمْ نَذِيرٌ‌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَىٰ مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ‌ مَّا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورً‌ا» [35-فاطر:42] ‏‏‏‏، یعنی ” بڑی پختہ قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر کوئی نبی کریم ہماری موجودگی میں آ جائیں تو ہم بڑے نیک بن جائیں گے اور ہدایت کی راہ کی طرف سب سے پہلے دوڑیں گے، لیکن جب نبی اللہ آ گئے تو بھاگ کھڑے ہوئے “۔

اور آیت میں فرمایا «‏‏‏‏أَن تَقُولُوا إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَىٰ طَائِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَ‌اسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ» الخ [6-الأنعام:156-157] ‏‏‏‏، پس یہاں فرمایا کہ ” جب یہ تمنا پوری ہوئی تو کفر کرنے لگے۔ اب انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ اللہ سے کفر کرنے کا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟“