اللہ تعالیٰ مشرکوں کی بیوقوفی بیان فرما رہا ہے کہ ” اپنے لیے تو لڑکے پسند کرتے ہیں اور اللہ کے لیے لڑکیاں مقرر کرتے ہیں۔ اگر لڑکی ہونے کی خبر یہ پائیں تو چہرے سیاہ پڑ جاتے ہیں اور اللہ کی لڑکیاں ثابت کرتے ہیں “۔
پس فرماتا ہے ” ان سے پوچھ تو سہی کہ یہ تقسیم کیسی ہے؟ کہ تمہارے تو لڑکے ہوں اور اللہ کے لیے لڑکیاں ہوں؟ “
پھر فرماتا ہے کہ ” یہ فرشتوں کو لڑکیاں کس ثبوت پر کہتے ہیں؟ کیا ان کی پیدائش کے وقت وہ موجود تھے “۔
قرآن کی اور آیت «وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَـٰنِ إِنَاثًا أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ» [43-الزخرف:19] ، میں بھی یہی بیان ہے۔
دراصل یہ قول ان کا محض جھوٹ ہے۔ کہ اللہ کے ہاں اولاد ہے۔ وہ اولاد سے پاک ہے۔ پس ان لوگوں کے تین جھوٹ اور تین کفر ہوئے اول تو یہ کہ فرشتے اللہ کی اولاد ہیں دوسرے یہ کہ اولاد بھی لڑکیاں تیسرے یہ کہ خود فرشتوں کی عبادت شروع کر دی۔
پھر فرماتا ہے کہ «أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنثَىٰ تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَىٰ» [ 53-النجم: 21، 22 ] آخر کس چیز نے اللہ کو مجبور کیا کہ اس نے لڑکے تو لیے نہیں اور لڑکیاں اپنی ذات کے لیے پسند فرمائیں؟ جیسے اور آیت میں ہے کہ «أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُم بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِنَاثًا إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا» [17-الإسراء:40] ” تمہیں تو لڑکوں سے نوازے اور فرشتوں کو اپنی لڑکیاں بنائے یہ تو تمہاری نہایت درجہ کی لغویات ہے “۔
یہاں فرمایا ” کیا تمہیں عقل نہیں جو ایسی دور از قیاس باتیں بناتے ہو تم سمجھتے نہیں ہو ڈرو کہ اللہ پر جھوٹ باندھنا کیسا برا ہے؟ اچھا گر کوئی دلیل تمہارے پاس ہو تو لاؤ اسی کو پیش کرو۔ یا اگر کسی آسمانی کتاب سے تمہارے اس قول کی سند ہو اور تم سچے ہو تو لاؤ اسی کو سامنے لے آؤ۔ یہ تو ایسی لچر اور فضول بات ہے جس کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہو ہی نہیں سکتی “۔
اتنے ہی پر بس نہ کی، جنات میں اور اللہ میں بھی رشتے داری قائم کی۔ مشرکوں کے اس قول پر کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ ”پھر ان کی مائیں کون ہیں؟“ تو انہوں نے کہا جن سرداروں کی لڑکیاں۔ حالانکہ خود جنات کو اس کا یقین و علم ہے کہ اس قول کے قائل قیامت کے دن عذابوں میں مبتلا کئے جائیں گے۔ ان میں بعض دشمنان اللہ تو یہاں تک کم عقلی کرتے تھے کہ شیطان بھی اللہ کا بھائی ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:535/10:] نعوذ باللہ۔
اللہ تعالیٰ اس سے بہت پاک منزہ اور بالکل دور ہے جو یہ مشرک اس کی ذات پر الزام لگاتے ہیں اور جھوٹے بہتان باندھتے ہیں۔ اس کے بعد استثناء منقطع ہے اور ہے مثبت مگر اس صورت میں کہ «یَصِفُوْنَ» کی ضمیر کا مرجع تمام لوگ قرار دیئے جائیں۔ پس ان میں سے ان لوگوں کو الگ کر لیا جو حق کے ماتحت ہیں اور تمام نبیوں رسولوں علیہم السلام پر ایمان رکھتے ہیں۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ استثناء «اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ» سے ہے یعنی ” سب کے سب عذاب میں پھانس لیے جائیں گے مگر وہ بندگان جو اخلاص والے تھے “۔ یہ قول ذرا تامل طلب ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔