قرآن مجيد

سورة الصافات
وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ[113]
اور ہم نے اس پر اور اسحاق پر برکت نازل کی اور ان دونوں کی اولاد میں سے کوئی نیکی کرنے والا ہے اور کوئی اپنے آپ پر صریح ظلم کرنے والا ہے۔[113]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 99، 100، 101، 102، 103، 104، 105، 106، 107، 108، 109، 110، 111، 112، 113،

ذبیح اللہ کی بحث اور یہودی روایات ٭٭

خلیل اللہ علیہ السلام جب اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس ہو گئے، بڑی بڑی قدرتی نشانیاں دیکھ کر بھی جب انہیں ایمان نصیب نہ ہوا تو آپ علیہ السلام نے ان سے ہٹ جانا پسند فرمایا اور اعلان کر دیا کہ میں اب تم میں سے ہجرت کرجاؤں گا میرا رہنما میرا رب ہے۔ ساتھ ہی اپنے رب سے اپنے ہاں اولاد ہونے کی دعا مانگی تاکہ وہی توحید میں آپ علیہ السلام کا ساتھ دے۔ اسی وقت دعا قبول ہوتی ہے اور ایک بردبار بچے کی بشارت دی جاتی۔ یہ اسماعیل علیہ السلام تھے یہی آپ علیہ السلام کے لیے صاحبزادے تھے اور اسحاق علیہ السلام سے بڑے تھے۔

اسے تو اہل کتاب بھی مانتے ہیں بلکہ ان کی کتب میں موجود ہے کہ اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کے وقت ابراہیم علیہ السلام کی عمر چھیاسی سال کی تھی اور جس وقت اسحاق علیہ السلام تولد ہوتے ہیں اس وقت آپ علیہ السلام کی عمر ننانوے برس کی تھی۔ بلکہ ان کی اپنی کتاب میں تو یہ بھی ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اکلوتے فرزند کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا۔

لیکن صرف اس لیے کہ یہ لوگ خود تو نبی اللہ اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور نبی اللہ و ذبیح اللہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے عرب ہیں۔ انہی نے واقعہ کی اصلیت بدل دی اور اس فضیلت کو اسماعیل علیہ السلام سے ہٹاکر اسحاق علیہ السلام کو دے دیا اور بے جا تاویلیں کرتے اللہ کے کلام کو بدل ڈالا، اور کہا ہماری کتاب میں لفظ «وَحِیْدَكَ» ہے اس سے مراد اکلوتا نہیں بلکہ جو تیرے پاس اس وقت اکیلا ہے وہ ہے۔ یہ اس لیے کہ اسماعیل تو اپنی والدہ کے ساتھ مکے میں تھے یہاں خلیل اللہ کے ساتھ صرف اسحاق تھے۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔

وحید اسی کو کہا جاتا ہے جو اکلوتا ہو اس کا اور کوئی بھائی نہ ہو۔ پھر یہاں ایک بات اور بھی ہے کہ اکلوتے اور پہلوٹھی کے بچے کے ساتھ جو محبت ہوتی اور اس کے جو لاڈ پیار ہوتے ہیں عموماً دوسری اولاد کے ہونے پر پھر وہ باقی نہیں رہتے۔ اس لیے اس کے ذبیحہ کا حکم امتحان اور آزمائش کی زبردست کڑی ہے۔

ہم اسے مانتے ہیں کہ بعض سلف بھی اس کے قائل ہوئے ہیں کہ ذبیح اللہ اسحاق علیہ السلام تھے، یہاں تک کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی یہ مروی ہے لیکن یہ چیز کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ خیال یہ ہے کہ بنو اسرائیل کی ایک شہرت دی ہوئی بات کو ان حضرات نے بھی بے دلیل اپنے ہاں لے لیا۔

دور کیوں جائیں کتاب اللہ کے الفاظ میں ہی غور کر لیجئیے کہ اسمٰعیل علیہ السلام کی بشارت کا غلام حلیم کہہ کر ذکر ہوا اور پھر اللہ کی راہ میں ذبح کے لیے تیار ہونے کا ذکر ہوا۔ اس تمام بیان کو ختم کر کے پھر نبی صالح اسحاق علیہ السلام کے تولد کی بشارت کا بیان ہوا۔ اور فرشتوں نے بشارت اسحاق کے موقع پر غلام علیم فرمایا تھا۔ اسی طرح قرآن میں ہے بشارت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ ہی ہے «وَمِنْ وَّرَاءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ» [11-ھود:71] ‏‏‏‏ یعنی ” ابراہیم کی حیات میں ہی اسحاق کے ہاں یعقوب پیدا ہوں گے “، یعنی ان کی تو نسل جاری رہنے کا پہلے ہی علم کرایا جا چکا تھا اب انہیں ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاتا؟ اسے ہم پہلے بھی بیان کر چکے۔ البتہ اسماعیل علیہ السلام کا وصف یہاں پر بردباری کا بیان کیا گیا ہے۔ جو ذبیح کے لیے نہایت مناسب ہے۔

اب اسماعیل علیہ السلام بڑے ہو گئے اپنے والد کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے۔ آپ علیہ السلام اس وقت مع اپنی والدہ محترمہ کے فاران میں تھے ابراہیم علیہ السلام عموماً وہاں جاتے آتے رہتے تھے یہ مذکور ہے کہ براق پر جاتے تھے اور اس جملے کے یہ معنی بھی ہیں کہ جوانی کے لگ بھگ ہو گئے لڑکپن کا زمانہ نکل گیا اور باپ کی طرح چلنے پھرنے کام کاج کرنے کے قابل بن گئے تو ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ گویا آپ علیہ السلام اپنے پیارے بچے کو ذبح کر رہے ہیں۔ انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں اور اس کی دلیل یہی آیت ہے۔ ایک مرفوع روایت میں بھی یہ ہے۔ [صحیح بخاری:138] ‏‏‏‏

پس اللہ کے رسول علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کی آزمائش کے لیے کہ اچانک وہ گھبرا نہ اٹھے، اپنا ارادہ ان کے سامنے ظاہر کیا۔ وہاں کیا تھا۔ وہ بھی اسی درخت کے پھل تھے نبی ابن نبی علیہ السلام تھے جواب دیتے ہیں اب پھر دیر کیوں لگا رہے ہو یہ باتیں بھی پوچھنے کی ہوتی ہیں جو حکم ہوا ہے اسے فوراً کر ڈالیے اور اگر میری نسبت کھٹکا ہو تو زبانی اطمینانی کیا کروں چھری رکھئے خود معلوم ہو جائے گا کہ میں کیسا کچھ صابر ہوں۔ ان شاءاللہ میرا صبر آپ کا جی خوش کر دے گا۔

سبحان اللہ جو کہا تھا وہی کر کے دکھایا اور صادق الوعد ہونے کا سرٹیفیکیٹ اللہ کی طرف سے حاصل کر ہی لیا۔ آخر باپ بیٹا دونوں حکم اللہ کی اطاعت کے لیے جان بکف تیار ہو جاتے ہیں باپ بچے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ اور باپ اپنے نور چشم لخت جگر کو منہ کے بل زمین پر گراتے ہیں تاکہ ذبح کے وقت منہ دیکھ کر محبت نہ آ جائے اور ہاتھ سست نہ پڑ جائے۔

مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام اپنی نور نظر کو ذبح کرنے کے لیے بحکم اللہ لے چلے تو سعی کے وقت شیطان سامنے آیا لیکن ابراہیم علیہ السلام اس سے آگے بڑھ گئے، پھر جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ آپ جمرہ عقبہ پر پہنچے تو پھر شیطان سامنے آیا، آپ علیہ السلام نے اسے سات کنکریاں ماریں۔‏‏‏‏

پھر جمرہ وسطی پاس آیا پھر وہاں سات کنکریاں ماریں۔ پھر آگے بڑھ کر اپنے پیارے بچے کو اللہ کے نام پر ذبح کرنے کے لیے نیچے پچھاڑا، ذبیح اللہ کے پاک جسم پر اس وقت سفید چادر تھی کہنے لگے ابا جی اسے اتار لیجئیے تاکہ اس میں آپ مجھے کفنا سکیں۔ اس وقت بیٹے کو ننگا کرتے وقت باپ کا عجب حال تھا کہ آواز آئی بس ابراہیم خواب کو سچا کر چکے۔ مڑ کر دیکھا تو ایک مینڈا سفید رنگ کا بڑے بڑے سینگوں اور صاف آنکھوں والا نظر پڑا، ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اسی لیے ہم اس قسم کے مینڈے (‏‏‏‏چھترے)‏‏‏‏‏‏‏‏ چن چن کر قربانی کے لیے لیتے تھے۔‏‏‏‏

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے دوسری روایت میں اسحاق علیہ السلام کا نام مروی ہے۔ تو گو دونوں نام آپ رضی اللہ عنہما سے مروی ہیں لیکن اول ہی اولیٰ ہے اور اس کی دلیلیں آ رہی ہیں۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔

اس کے بدلے بڑا ذبیحہ، اللہ نے عطا فرمایا اس کی بابت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ جنتی چھترا تھا جو وہاں چالیس سال سے کھا پی رہا تھا۔‏‏‏‏ اسے دیکھ کر آپ علیہ السلام اپنے بچے کو چھوڑ کر اس کے پیچھے ہولیے۔ جمرہ اولیٰ پر آ کر سات کنکریاں پھنکیں پھر وہ بھاگ کر جمرہ وسطی پر آ گیا۔ سات کنکریاں ماریں اور وہاں سے ملخر میں لا کر ذبح کیا اس کے سینگ سر سمیت ابتداء اسلام کے زمانہ تک کعبے کے پرنالے کے پاس لٹکتے رہے تھے پھر سوکھ گئے۔

ایک مرتبہ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تو حدیثیں بیان کر رہے تھے اور کعب رضی اللہ عنہ کتاب کے قصے بیان کر رہے تھے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر نبی کے لیے ایک دعا قبول شدہ ہے اور میں نے اپنی اس مقبول دعا کو پوشیدہ کر کے رکھ چھوڑا ہے اپنی امت کی شفاعت کے لئے جو بروز قیامت ہوگی، تو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے خود اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ فرمایا ہاں۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ خوش ہوئے اور فرمانے لگے تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں یا فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ صدقے جائیں۔

پھر کعب رضی اللہ عنہ نے ابراہیم خلیل علیہ السلام کا قصہ سنایا کہ جب آپ علیہ السلام اپنے لڑکے اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے مستعد ہو گئے تو شیطان نے کہا اگر میں اس وقت انہیں نہ بہکا سکا تو مجھے ان سے عمر بھر کے لیے مایوس ہو جانا چاہیئے۔

پہلے تو یہ سارہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور پوچھا کہ ابراہیم علیہ السلام تمہارے لڑکے کو کہاں لے گئے ہیں؟ مائی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا اپنے کسی کام پر لے گئے ہیں، اس نے کہا نہیں بلکہ وہ ذبح کرنے کے لیے لے گئے ہیں۔ مائی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا وہ اسے کیوں ذبح کرنے لگے؟ لعین نے کہا وہ کہتے ہیں اللہ کی طرف سے یہی حکم ہے جواب ملا پھر تو یہی بہتر ہے کہ وہ جلدی سے اللہ کے حکم کی بجا آوری سے فارغ ہو لیں۔

یہاں سے نامراد ہو کر بچے کے پاس آیا اور کہا تمہارے ابا تمہیں کہاں لے جاتے ہیں؟ فرمایا اپنے کام کے لیے کہا نہیں بلکہ وہ تجھے ذبح کرنے کے لیے لے جا رہے ہیں، فرمایا یہ کیوں؟ کہا اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں اللہ کا انہیں حکم ہے۔ کہا پھر تو واللہ انہیں اس کام میں بہت جلدی کرنی چاہیئے۔

ان سے بھی مایوس ہو کر یہ ملعون خلیل اللہ علیہ السلام کے پاس پہنچا۔ ان سے کہا بچے کو کہاں لے جا رہے ہو؟ جواب دیا اپنے کام کے لیے ملعون نے کہا نہیں بلکہ تم تو اسے ذبح کرنے کے لیے جا رہے ہو؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ کیوں؟ بولا اس لیے کہ تمہارا خیال ہے کہ اللہ کا حکم تمہیں یونہی ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا اللہ کی قسم پھر تو میں ضرور ہی اسے ذبح کر ڈالوں گا۔ اب ابلیس مایوس ہو گیا۔ [عبد الرزاق فی المصنف:20864:صحیح] ‏‏‏‏

دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ اس تمام واقعے کے بعد جناب باری تعالیٰ نے اسحاق علیہ السلام سے فرمایا کہ ” ایک دعا تم مجھ سے مانگو جو مانگو گے ملے گا “۔ اسحاق علیہ السلام نے کہا پھر میری دعا یہ ہے کہ جس نے تیرے ساتھ شریک نہ کیا ہو اسے تو ضرور جنت میں لے جانا۔‏‏‏‏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ میں دو باتوں میں سے ایک کو اختیار کر لوں یا تو یہ کہ میری آدھوں آدھ امت بخشی جائے یا یہ کہ میں شفاعت کروں اور اسے اللہ تعالیٰ قبول فرما لے تو میں نے شفاعت کرنے کو ترجیح دی اس پر کہ وہ عام ہو گی، ہاں ایک دعا تھی کہ میں وہی کرتا لیکن اللہ کا ایک نیک بندہ مجھ سے پہلے اس دعا کو مانگ چکا تھا ۔

واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسحاق علیہ السلام سے ذبح ہونے کی تکلیف دور کر دی تو ان سے فرمایا گیا کہ ” تو مانگ جو مانگے گا دیا جائے گا “۔ تو اسحاق علیہ السلام نے فرمایا واللہ شیطان کے بہکانے سے پہلے ہی میں اسے مانگ لوں گا، اللہ جو شخص اس حالت میں مرا ہو کہ اس نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو اسے بخش دے اور جنت میں پہنچا دے۔‏‏‏‏ [الدر المنشور للسیوطی:531/5:ضعیف] ‏‏‏‏

یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن سنداً غریب اور منکر ہے اور اس کے ایک راوی عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں اور مجھے تو یہ بھی ڈر ہے کہ یہ الفاظ کہ (‏‏‏‏جب اللہ تعالیٰ نے اسحاق علیہ السلام سے) آخر تک راوی اپنے نہ ہوں جنہیں انہوں نے حدیث میں داخل کر دئیے ہیں۔

ذبیح اللہ تو اسماعیل علیہ السلام ہیں، محل ذبح منیٰ ہے اور وہ مکے میں ہے اور اسماعیل علیہ السلام یہیں تھے نہ کہ اسحاق علیہ السلام وہ تو شہر کنعان میں تھے جو شام ہے۔

جب ابراہیم علیہ السلام اپنے پیارے بچے کو ذبح کرنے کے لیے لٹا دیتے ہیں جناب باری سے ندا آتی ہے کہ ” بس ابراہیم علیہ السلام تم اپنے خواب کو پورا کر چکے “۔

سدی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ جب خلیل اللہ علیہ السلام نے ذبیح اللہ علیہ السلام کے حلق پر چھری پھیری تو گردن تانبے کی ہو گئے اور نہ کٹی اور یہ آواز آئی۔‏‏‏‏

ہم اسی طرح نیک کاروں کو بدلہ دیتے ہیں۔ یعنی سختیوں سے بچا لیتے ہیں اور چھٹکارا کر دیتے ہیں۔ جیسے فرمایا ” اللہ سے ڈرتے رہنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ چھٹکارے کی صورت نکال ہی دیتا ہے اور اسے ایسی طرح روزی پہنچاتا ہے کہ اس کے گمان و وہم میں بھی نہ ہو۔ اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی کافی ہے اللہ اپنے کاموں کو مکمل کر کے چھوڑتا ہے ہرچیز کا اس نے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے “۔

اس آیت سے اس پر استدلال کیا گیا ہے کہ فعل پر قدرت پانے سے پہلے ہی حکم منسوخ ہو سکتا ہے۔

ہاں معتزلہ اسے نہیں مانتے۔ وجہ استدلال بہت ظاہر ہے اس لیے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو اپنے بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم ہوتا ہے اور پھر ذبح سے پہلے ہی فدئیے کے ساتھ منسوخ کر دیا جاتا ہے۔

مقصود اس سے یہ تھا کہ صبر کا اور بجا آوری حکم پر مستعدی کا ثواب مرحمت فرما دیا جائے۔ اسی لیے ارشاد ہوا ” یہ تو صرف ایک آزمائش تھی کھلا امتحان تھا کہ ادھر حکم ہوا ادھر تیاری ہوئی “۔ اسی لیے جناب خلیل اللہ علیہ السلام کی تعریف میں قرآن میں ہے ” ابراہیم بڑا ہی وفادار تھا۔ بڑے ذبیح کے ساتھ ان کا فدیہ ہم نے دیا “۔ سفید رنگ بڑی آنکھوں اور بڑے سینگوں والا عمدہ خوراک سے پلا ہوا منیڈھا فدئیے میں دیا گیا جو ثبیر ببول کے درخت سے بندھا ہوا ملا۔ جو جنت میں چالیس سال چرتا رہا۔ منیٰ میں ثبیر کے پاس جو چٹان ہے اس پر یہ جانور ذبح کیا گیا یہ چیختا ہوا اوپر سے اترا تھا۔ یہی وہ مینڈھا ہے جسے ہابیل نے اللہ کی راہ میں قربان کیا تھا۔ اس کی اون قدرے سرخی مائل تھی اس کا نام جریر تھا۔ بعض کہتے ہیں مقام ابراہیم پر اسے ذبح کیا۔ کوئی کہتا ہے مٹی میں نحر پر۔

ایک شخص نے اپنے تئیں راہ اللہ میں ذبح کرنے کی منت مانی تھی تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے ایک سو اونٹ ذبح کرنے کا فتویٰ دیا تھا لیکن پھر فرماتے تھے کہ اگر میں اسے ایک بھیڑ ذبح کرنے کو کہتا تب بھی کافی تھا کیونکہ کتاب اللہ میں ہے کہ ذبیح اللہ کا فدیہ اسی سے دیا گیا تھا۔‏‏‏‏ اکثر لوگوں کا یہی قول ہے بعض کہتے ہیں یہ پہاڑی بکرا تھا۔ کوئی کہتا ہے نر ہرن تھا۔

مسند احمد میں ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے بھیڑ کے سینگ بیت اللہ شریف میں داخلے کے وقت اندر دیکھے تھے اور مجھے یاد نہ رہا کہ میں تجھے ان کے ڈھانک دینے کا حکم دوں، جاؤ اسے ڈھک دو بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز نہ ہونی چاہیئے جو نمازی کو اپنی طرف متوجہ کر لے ۔ [سنن ابوداود:2030،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس بھیڑ کے سینگ بیت اللہ میں ہی رہے یہاں تک کہ ایک مرتبہ بیت اللہ میں آگ لگی اس میں وہ جل گئے۔ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:23221،] ‏‏‏‏

یہ واقعہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ ذبیح اللہ، اسماعیل علیہ السلام تھے اسی وجہ سے ان کی اولاد قریش تک یہ سینگ برابر اور مسلسل چلے آئے یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے مبعوث فرمایا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

ان آثار کا بیان جن میں ذبیح اللہ کا نام ہے ابومیسرہ فرماتے ہیں یوسف علیہ السلام نے بادشاہ سے فرمایا کیا تو میرے ساتھ کھانا چاہتا ہے، میں یوسف بن یعقوب نبی اللہ بن اسحاق ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ ہوں [ عبید بن عمیر رحمه الله] ‏‏‏‏

موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کی کہ اے اللہ کیا وجہ ہے جو لوگوں کی زبانوں پر یہ چڑھا ہوا ہے کہ ابراہیم، اسمٰعیل اور یعقوب علیہم السلام کے اللہ کی قسم، تو جواب ملا ” اس لیے ابراہیم نے تو ہر ہرچیز پر مجھی کو ترجیح دی اور اسحاق علیہ السلام نے اپنے تئیں میری راہ میں ذبح ہونے کے لیے سپرد کر دیا پھر بھلا اور چیزیں اسے پیش کر دینا کیا مشکل تھیں اور یعقوب علیہ السلام کو میں جوں جوں بلاؤں میں ڈالتا گیا اس کے حسن ظنی میرے ساتھ بڑھتی ہی رہی “۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ کسی نے فخراً اپنے باپ دادوں کا نام لیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا قابل فخر باپ دادا تو یوسف علیہ السلام کے تھے جو یعقوب بن اسحاق علیہ السلام اور ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام تھے۔

عکرمہ، سیدنا ابن عباس، خود سیدنا عباس، سیدنا علی،سعید بن جبیر رضی اللہ عنہم، مجاہد، شعبی، عبید بن عمر، ابومیسرہ، زید بن اسلم، عبداللہ بن شفیق، زہری، قاسم بن ابوبرزہ، محکول، عثمان بن ابی عاص، سدی، حسن، قتادہ، ابو الہذیل، ابن سابط، کعب احبار رحمہم اللہ اجمعین، ان سب کا یہی قول ہے اور ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ ذبیح اللہ اسحاق علیہ السلام تھے۔ صحیح علم تو اللہ کو ہی ہے مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان سب بزرگوں کے استاد کعب احبار رحمہ اللہ ہیں۔

یہ خلافت فاروقی میں مسلمان ہوئے تھے اور کبھی کبھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو قدیمی کتابوں کی باتیں سناتے تھے، لوگوں نے اسے رخصت سمجھ کر پھر ان سے ہر ایک بات بیان کرنی شروع کر دی اور صحیح غلط کی تمیز اٹھ گئی حق تو یہ ہے کہ اس امت کو اگلی کتابوں کی ایک بات کی بھی حاجت نہیں۔ بغوی نے کچھ اور نام بھی صحابہ تابعین کے بتلائے ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ذبیح اللہ اسحاق علیہ السلام ہیں۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:29495:ضعیف] ‏‏‏‏

اگر وہ حدیث صحیح ہوتی تو جھگڑے کا فیصلہ تھا مگر وہ حدیث صحیح نہیں اس میں دو راوی ضعیف ہیں۔ حسن بن دینار متروک ہیں اور علی بن زید بن جدعان منکر الحدیث ہیں اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ ہے یہ بھی موقف، چنانچہ ایک سند سے یہ مقولہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مروی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

اب ان آثار کو سنئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبیح اللہ اسماعیل علیہ السلام ہی تھے اور یہی ٹھیک اور بالکل درست بھی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہودی اسحاق علیہ السلام کا نام جھوٹ موٹ لیتے ہیں۔‏‏‏‏

ابن عمر رضی اللہ عنہ، مجاہد، شعبی، حسن بصری، محمد بن کعب قرظی، خلیفہ المسلمین عمر ابن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہم کے سامنے جب محمد بن قرظی رحمہ اللہ نے یہ فرمایا اور ساتھ ہی اس کی دلیل بھی دی کہ ذبح کے ذکر کے بعد قرآن میں خلیل اللہ علیہ السلام کو اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بشارت کا ذکر ہے اور ساتھ ہی بیان ہے کہ ان کے ہاں بھی لڑکا ہو گا یعقوب نامی جب ان کے ہاں لڑکا ہونے کی بشارت دی گی تھی پھر باوجود ان کے ہاں لڑکا نہ ہوں کے اس سے پہلے ہی ان کے ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاتا ہے؟

تو سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا یہ بہت صاف دلیل ہے میرا ذہن یہاں نہیں پہنچا تھا گو یہ میں بھی جانتا تھا کہ ذبیح اللہ اسماعیل علیہ السلام ہی ہیں۔ پھر شاہ اسلام نے شام کے ایک یہودی عالم سے پوچھا جو مسلمان ہو گئے تھے کہ تم اس بارے میں کیا علم رکھتے ہو انہوں نے فرمایا امیر المسلمین سچ تو یہی ہے کہ جن کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا وہ اسماعیل علیہ السلام ہی تھے لیکن چونکہ عرب ان کی اولاد میں سے ہیں تو یہ بزرگی ان کی طرف لوٹتی ہے اس حسد کے بارے میں یہودیوں نے اسے بدل دیا اور اسحاق علیہ السلام کا نام لے دیا۔ حقیقی علم اللہ ہی کو ہے ہمارا ایمان ہے کہ اسماعیل، اسحاق علیہم السلام دونوں ہی طاہر و طیب اور اللہ کے سچے فرمانبردار تھے۔

کتاب الزہد میں ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے صاحبزادے عبداللہ رحمہ اللہ نے اپنے والد سے جب یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ ذبح ہونے والے اسماعیل علیہ السلام ہی تھے۔‏‏‏‏ علی ابن عمر، ابوالطفیل، سعید بن مسیب، سعید بن جبیر، حسن، مجاہد، شعبی، محمد بن کعب، ابوجعفر محمد بن علی ابوصالح رحمہ اللہ عنہم سے بھی یہی مروی ہے۔

امام بغوی رحمہ اللہ نے اور بھی صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین کے نام گنوائے ہیں۔ ایک غریب حدیث بھی اسی کی تائید میں مروی ہے اس میں ہے کہ شام میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ بحث چھڑی کہ ذبیح اللہ کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا خوب ہوا جو یہ معاملہ مجھ جیسے باخبر شخص کے پاس آیا، سنو! ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے جب ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کی راہ میں دو ذبح ہونے والوں کی نسل کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھی مال غنیمت میں سے کچھ دلوایئے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیئے۔ ایک تو ذبیح اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ تھے، دوسرے اسمعیل علیہ السلام جن کی نسل میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ عبداللہ کے ذبیح اللہ ہونے کا واقعہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے جب چاہ زمزم کھودا تو نذر مانی تھی کی اگر یہ کام آسانی سے پورا ہو گیا تو اپنے ایک لڑکے کو راہ اللہ میں ذبح کروں گا جب کام ہو گیا اور قرعہ اندازی کی گئی کہ کس بیٹے کو اللہ کے نام پر ذبح کریں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کا نام نکلا۔ ان کے ننھیال والوں نے کہا آپ ان کی طرف سے ایک سو اونٹ راہ اللہ ذبح کر دیں چنانچہ وہ ذبح کر دیئے گئے اور اسماعیل علیہ السلام کے ذبیح اللہ ہونے کا واقعہ تو مشہور ہی ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:29530:ضعیف] ‏‏‏‏ ابن جریر میں یہ روایت موجود ہے اور مغازی امویہ میں بھی۔

امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسحاق علیہ السلام کے ذبیح اللہ ہونے کی ایک دلیل تو یہ پیش کی یہ کہ جس علیم بچے کی بشارت کا ذکر ہے اس سے مراد اسحاق علیہ السلام ہیں قرآن میں اور جگہ ہے «قَالُوا لَا تَخَفْ وَبَشَّرُ‌وهُ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ» [51-الذاريات:28] ‏‏‏‏، اور یعقوب علیہ السلام کی بشارت کا یہ جواب دیا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گئے تھے اور ممکن ہے کہ یعقوب علیہ السلام کے ساتھ ہی کوئی اور اولاد بھی ہوئی ہو اور کعبتہ اللہ میں سینگوں کی موجودگی کے بارے میں فرماتے ہیں بہت ممکن ہے کہ یہ بلادکنعان سے لا کر یہاں رکھے گئے ہوں۔‏‏‏‏

اور بعض لوگوں سے اسحاق علیہ السلام کے نام کی صراحت بھی آئی ہے، لیکن یہ سب باتیں حقیقت سے بہت دور ہیں۔ ہاں اسماعیل علیہ السلام کے ذبیح اللہ ہونے پر محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ کا استدلال بہت صاف اور قوی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

پہلے ذبیح اللہ اسمعیل علیہ السلام کے تولد ہونے کی بشارت دی گئی تھی یہاں اس کے بعد ان کے بھائی اسحاق علیہ السلام کی بشارت دی جا رہی ہے۔ سورۃ ہود اور سورۃ الحجر میں بھی اس کا ذکر گذر چکا ہے۔ «نبیاً» حال مقدرہ ہے یعنی وہ نبی صالح ہو گا۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ذبیح اللہ اسحاق علیہ السلام تھے اور یہاں نبوت اسحاق علیہ السلام کو بشارت ہے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمان ہے کہ ” ہم نے انہیں اپنی رحمت سے ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا دیا “۔ حالانکہ ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام سے بڑے تھے تو یہاں بھی ان کی نبوت کی بشارت ہے۔ پس یہ بشارت اس وقت دی گئی جبکہ امتحان ذبح میں وہ صابر ثابت ہوئے۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ بشارت دو مرتبہ دی گئی پیدائش سے کچھ قبل اور نبوت سے کچھ قبل۔

حضرت قتادہ رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے۔ ” ان پر اور اسحاق علیہ السلام پر ہماری برکتیں ہم نے نازل فرمائیں، ان کی اولاد میں ہر قسم کے لوگ ہیں نیک بھی بد بھی “۔

جیسے نوح علیہ السلام سے فرمان ہوا تھا کہ «قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَ‌كَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَكَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ» ‏‏‏‏ ” اے نوح ہماری سلام اور برکت کے ساتھ تواتر۔ تو بھی اور تیرے ساتھ والے بھی اور ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں ہم فائدے پہنچائیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچیں گے “۔ [11-هود:48] ‏‏‏‏