قرآن مجيد

سورة يس
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ[60]
کیا میں نے تمھیں تاکیدنہ کی تھی اے اولاد آدم! کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، یقینا وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔[60]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 59، 60، 61، 62،

نیک و بد علیحدہ علیحدہ کر دیئے جائیں گے ٭٭

فرماتا ہے کہ نیک کاروں سے بدکاروں کو چھانٹ دیا جائے گا، کافروں سے کہدیا جائے گا کہ مومنوں سے دور ہو جاؤ، پھر ہم ان میں امتیاز کر دیں گے انہیں الگ الگ کر دیں گے۔ اسی طرح سورۃ یونس میں ہے «وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ» [ 10-یونس: 28 ] ‏‏‏‏ اور آیت «وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَتَفَرَّقُونَ» [ 30-الروم: 14 ] ‏‏‏‏ [ ترجمہ ] ‏‏‏‏ جس روز قیامت قائم ہو گی اس روز سب کے سب جدا جدا ہو جائیں گے۔ یعنی ان کے دو گروہ بن جائیں گے۔ سورۃ و الصافات میں فرمان ہے «اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْجَحِيمِ» [ 37- الصافات: 23، 22 ] ‏‏‏‏، یعنی ظالموں کو اور ان جیسوں کو اور ان کے جھوٹے معبودوں کو جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے جمع کرو اور انہیں جہنم کا راستہ دکھاؤ۔ جنتیوں پر جو طرح طرح کی نوازشیں ہو رہی ہوں گی اس طرح جہنمیوں پر طرح طرح کی سختیاں ہو رہی ہوں گی انہیں بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا کہ کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی نہ ماننا، وہ تمہارا دشمن ہے؟

لیکن اس پر بھی تم نے مجھ رحمان کی نافرمانی کی اور اس شیطان کی فرمانبرداری کی۔ خالق مالک رازق میں، اور فرمانبرداری کی جائے میرے راندہ درگاہ کی؟ میں تو کہہ چکا تھا کہ ایک میری ہی ماننا صرف مجھ ہی کو پوجنا مجھ تک پہنچنے کا سیدھا قریب کا اور سچا راستہ یہی ہے لیکن تم الٹے چلے، یہاں بھی الٹے ہی جاؤ، ان نیک بختوں کی اور تمہاری راہ الگ الگ ہے یہ جنتی ہیں تم جہنمی ہو۔

جبلا سے مراد خلق کثیر بہت ساری مخلوق ہے لغت میں «جُبَلْ» بھی کہا جاتا ہے اور «جبل» بھی کہا جاتا ہے، شیطان نے تم میں سے بکثرت لوگوں کو بہکا دیا اور صحیح راہ سے ہٹا دیا، تم میں اتنی بھی عقل نہ تھی کہ تم اس کا فیصلہ کر سکتے کہ رحمان کی مانیں یا شیطان کی؟ اللہ کو پوجیں یا مخلوق کو؟

ابن جریر میں ہے قیامت کے دن اللہ کے حکم سے جہنم اپنی گردن نکالے گی جس میں سخت اندھیرا ہو گا اور بالکل ظاہر ہو گی وہ بھی کہے گی کہ اے انسانو! کیا اللہ تعالیٰ نے تم سے وعدہ نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا؟ وہ تمہارا ظاہری دشمن ہے اور میری عبادت کرنا یہ سیدھی راہ ہے، اس نے تم میں سے اکثروں کو گمراہ کر دیا کیا تم سمجھتے نہ تھے؟ اے گنہگارو! آج تم جدا ہو جاؤ۔ اس وقت نیک بد الگ الگ ہو جائیں گے۔ «وَتَرَىٰ كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَىٰ إِلَىٰ كِتَابِهَا الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ» [ 45-الجاثية: 28 ] ‏‏‏‏ ہر ایک گھنٹوں کے بل گر پڑے گا، ہر ایک کو اس کے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا، آج ہی بدلے دیئے جاؤ گے جو کر کے آئے ہو۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:29210:ضعیف] ‏‏‏‏