اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی ایک اور نشانی بیان ہو رہی ہے اور وہ دن رات ہیں جو اجالے اور اندھیرے والے ہیں اور برابر ایک دوسرے کے پیچھے جا رہے ہیں جیسے فرمایا «يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا» [ 7- الاعراف: 54 ] رات سے دن کو چھپاتا ہے اور رات دن کو جلدی جلدی ڈھونڈتی آتی ہے۔ یہاں بھی فرمایا رات میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں، دن تو ختم ہوا اور رات آ گئی اور ہر طرف سے اندھیرا چھا گیا۔ حدیث میں ہے جب ادھر سے رات آ جائے اور دن ادھر سے چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار افطار کر لے۔ [صحیح بخاری:1954]
ظاہر آیت تو یہی ہے لیکن حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب مثل آیت «ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ» [ 22-الحج: 61 ] کے ہے یعنی اللہ تعالٰی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے۔
حضرت امام ابن جریر رحمہ اللہ اس قول کو ضعیف بتاتے ہیں اور فرماتے اس آیت میں جو لفظ «ایلاج» ہے اس کے معنی ایک کی کمی کر کے دوسری میں زیادتی کرنے کے ہیں اور یہ مراد اس آیت میں نہیں، امام صاحب کا یہ قول حق ہے۔ «مستقر» سے مراد یا تو «مستقر مکانی» یعنی جائے قرار ہے اور وہ عرش تلے کی وہ سمت ہے پس ایک سورج ہی نہیں بلکہ کل مخلوق عرش کے نیچے ہی ہے اس لیے کہ عرش ساری مخلوق کے اوپر ہے اور سب کو احاطہٰ کئے ہوئے ہے اور وہ کرہ نہیں ہے جیسے کہ ہئیت داں کہتے ہیں۔ بلکہ وہ مثل قبے کے ہے جس کے پائے ہیں اور جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں انسانوں کے سروں کے اوپر اوپر والے عالم میں ہے، پس جبکہ سورج فلکی قبے میں ٹھیک ظہر کے وقت ہوتا ہے اس وقت وہ عرش سے بہت قریب ہوتا ہے پھر جب وہ گھوم کر چوتھے فلک میں اسی مقام کے بالمقابل آ جاتا ہے یہ آدھی رات کا وقت ہوتا ہے جبکہ وہ عرش سے بہت دور ہو جاتا ہے پس وہ سجدہ کرتا ہے اور طلوع کی اجازت چاہتا ہے جیسا کہ احادیث میں ہے۔
صحیح بخاری میں ہے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ میں سورج کے غروب ہونے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا جانتے ہو یہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی خوب جانتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ عرش تلے جا کر اللہ کو سجدہ کرتا ہے پھر آپ نے آیت «وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ» [ 36-یس: 38 ] ، تلاوت کی۔ [صحیح بخاری:3199]
اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قرار گاہ عرش کے نیچے ہے، [صحیح بخاری:4803]
مسند احمد میں اس سے پہلے کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے واپس لوٹنے کی اجازت طلب کرتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے۔ گویا اس سے کہا جاتا ہے کہ جہاں سے آیا تھا وہیں لوٹ جا تو وہ اپنے طلوع ہونے کی جگہ سے نکلتا ہے اور یہی اس کا مستقر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے ابتدائی فقرے کو پڑھا۔ [صحیح بخاری:3199]
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے لیکن قبول نہ کیا جائے اور اجازت مانگے لیکن اجازت نہ دی جائے بلکہ کہا جائے جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا پس وہ مغرب سے ہی طلوع ہو گا یہی معنی ہیں اس آیت کے۔ [صحیح بخاری:3199]
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سورج طلوع ہوتا ہے اسے انسانوں کے گناہ لوٹا دیتے ہیں وہ غروب ہو کر سجدے میں پڑتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے، ایک دن یہ غروب ہو کر بہ عاجزی سجدہ کرے گا اور اجازت مانگے گا لیکن اجازت نہ دی جائے گی وہ کہے گا کہ راہ دور ہے اور اجازت ملی نہیں تو پہنچ نہیں سکوں گا پھر کچھ دیر روک رکھنے کے بعد اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے غروب ہوا تھا وہیں سے طلوع ہو جا۔ یہی قیامت کا دن ہو گا جس دن ایمان لانا محض بےسود ہو گا اور نیکیاں کرنا بھی ان کے لیے جو اس سے پہلے ایماندار اور نیکوکار نہ تھے بے کار ہو گا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مستقر سے مراد اس کے چلنے کی انتہا ہے پوری بلندی جو گرمیوں میں ہوتی ہے اور پوری پستی جو جاڑوں میں ہوتی ہے۔ پس یہ ایک قول ہوا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ آیت کے اس لفظ مستقر سے مراد اس کی چال کا خاتمہ ہے قیامت کے دن اس کی حرکت باطل ہو جائے گی یہ بے نور ہو جائے گا اور یہ عالم کل کا کل ختم ہو جائے گا۔ یہ مستقر زمانی ہے۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ اپنے مستقر پر چلتا ہے یعنی اپنے وقت اور اپنی میعاد پر جس سے تجاوز کر نہیں سکتا جو اس کے راستے جاڑوں کے اور گرمیوں کے مقرر ہیں انہی راستوں سے آتا جاتا ہے، سیدنا ابن مسعود اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم کی قرأت لامستقرلھا ہے یعنی اس کے لیے سکون و قرار نہیں بلکہ دن رات بحکم اللہ چلتا رہتا ہے نہ رکے نہ تھکے جیسے فرمایا «وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاىِٕـبَيْنِ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ» [ 14- ابراھیم: 33 ] یعنی اس نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کیا ہے جو نہ تھکیں نہ ٹھہریں قیامت تک چلتے پھرتے ہی رہیں گے۔ یہ اندازہ اس اللہ کا ہے جو غالب ہیں جس کی کوئی مخالفت نہیں کر سکتا جس کے حکم کو کوئی ٹال نہیں سکتا، وہ علیم ہے، ہر حرکت و سکون کو جانتا ہے۔ اس نے اپنی حکمت کاملہ سے اس کی چال مقرر کی ہے جس میں نہ اختلاف واقع ہو سکے نہ اس کے برعکس ہو سکے۔
جیسے فرمایا «فَالِقُ الْاِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ» [ 6- الانعام: 96 ] ، صبح کا نکالنے والا جس نے رات کو راحت کا وقت بنایا اور سورج چاند کو حساب سے مقرر کیا، یہ ہے اندازہ غالب ذی علم کا۔
حم سجدہ کی آیت «ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ» [ 41-فصلت: 12 ] کو بھی اسی طرح ختم کیا۔
پھر فرماتا ہے «هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ» [ 10-یونس: 5 ] چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں وہ ایک جداگانہ چال چلتا ہے جس سے مہینے معلوم ہو جائیں جیسے سورج کی چال سے رات دن معلوم ہو جاتے ہیں، جیسے فرمان ہے کہ «يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ» [ 2-البقرة: 189 ] لوگ تجھ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو جواب دے کہ وقت اور حج کے موسم کو بتانے کے لیے ہے۔
اور آیت میں فرمایا اس نے سورج کو ضیاء اور چاند کو نور دیا ہے اور اس کی منزلیں ٹھہرا دی ہیں تاکہ تم سالوں کو اور حساب کو معلوم کر لو۔ ایک آیت میں ہے «وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا» [ 17-الإسراء: 12 ] ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنا دیا ہے، رات کی نشانی کو ہم نے دھندلا کر دیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن کیا ہے تاکہ تم اس میں اپنے رب کی نازل کردہ روزی کو تلاش کر سکو اور برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو ہم نے ہرچیز کو خوب تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ پس سورج کی چمک دمک اس کے ساتھ مخصوص ہے اور چاند کی روشنی اسی میں ہے۔ اس کی اور اس کی چال بھی مختلف ہے۔ سورج ہر دن طلوع و غروب ہوتا ہے اسی روشنی کے ساتھ ہوتا ہے ہاں اس کے طلوع و غروب کی جگہیں جاڑے میں اور گرمی میں الگ الگ ہوتی ہیں، اسی سبب سے دن رات کی طولانی میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے سورج دن کا ستارہ ہے اور چاند رات کا ستارہ ہے اس کی منزلیں مقرر ہیں۔
مہینے کی پہلی رات طلوع ہوتا ہے بہت چھوٹا سا ہوتا ہے روشنی کم ہوتی ہے، دوسری شب روشنی اس سے بڑھ جاتی ہے اور منزل بھی ترقی کرتی جاتی ہے، پھر جوں جوں بلند ہوتا جاتا ہے روشنی بڑھتی جاتی ہے، گو اس کی نورانیت سورج سے لی ہوئی ہوتی ہے آخر چودہویں رات کو چاند کامل ہو جاتا ہے اور اسی کی چاندنی بھی کمال کی ہو جاتی ہے۔ پھر گھٹنا شروع ہوتا ہے اور اسی طرح درجہ بدرجہ بتدریج گھٹتا ہوا مثل کھجور کے خوشے کی ٹہنی کے ہو جاتا ہے جس پر تر کھجوریں لٹکتی ہوں اور وہ خشک ہو کر بل کھا گئی ہو۔
پھر اسے نئے سرے سے اللہ تعالیٰ دوسرے مہینے کی ابتداء میں ظاہر کرتا ہے، عرب میں چاند کی روشنی کے اعتبار سے مہینے کی راتوں کے نام رکھ لیے گئے ہیں، مثلاً پہلی تین راتوں کا نام غرر ہے، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام نفل ہے، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام تسع ہے، اس لیے کہ ان کی آخری رات نویں ہوتی ہے، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام عشر ہے، اس لیے کہ اس کا شروع دسویں سے ہے، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام بیض ہے، اس لیے کہ ان راتوں میں چاندنی کی روشنی آخر تک رہا کرتی ہے، اس کے بعد کی تین راتوں کا نام ان کے ہاں ورع ہے، یہ لفظ ورعاء کی جمع ہے، ان کا یہ نام اس لیے رکھا ہے کہ سولہویں کو چاند ذرا دیر سے طلوع ہوتا ہے تو تھوڑی دیر تک اندھیرا یعنی سیاہی رہتی ہے اور عرب میں اس بکری کو جس کا سر سیاہ ہو «شاۃ درعاء» کہتے ہیں، اس کے بعد کی تین راتوں کو ظلم کہتے ہیں، پھر تین کو ضاوس پھر تین کو دراری پھر تین کو محاق اس لیے کہ اس میں چاند ختم ہو جاتا ہے اور مہینہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔
سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ان میں سے تسع اور عشر کو قبول نہیں کرتے، ملاحظہ ہو کتاب غریب المصنف۔ سورج چاند کی حدیں اس نے مقرر کی ہیں ناممکن ہے کہ کوئی اپنی حد سے ادھر ادھر ہو جائے یا آگے پیچھے ہو جائے، اس کی باری کے وقت وہ گم ہے اس کی باری کے وقت یہ خاموش ہے۔
حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ چاند رات کو ہے۔ ابن مبارک رحمہ اللہ کا قول ہے ہوا کے پر ہیں اور چاند پانی کے غلاف تلے جگہ کرتا ہے، ابوصالح فرماتے ہیں اس کی روشنی اس کی روشنی کو پکڑ نہیں سکتی، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں رات کو سورج طلوع نہیں ہو سکتا۔ نہ رات دن سے سبقت کر سکتی ہے، یعنی رات کے بعد ہی رات نہیں آ سکتی بلکہ درمیان میں دن آ جائے گا، پس سورج کی سلطنت دن کو ہے اور چاند کی بادشاہت رات کو ہے، رات ادھر سے جاتی ہے ادھر سے دن آتا ہے ایک دوسرے کے تعاقب میں ہیں، لیکن نہ تصادم کا ڈر ہے نہ بے نظمی کا خطرہ ہے، نہ یہ کہ دن ہی دن چلا جائے رات نہ آئے نہ اس کے خلاف، ایک جاتا ہے دوسرا آتا ہے، ہر ایک اپنے اپنے وقت پر غائب و حاضر ہوتا رہتا ہے، سب کے سب یعنی سورج چاند دن رات فلک آسمان میں تیر رہے ہیں اور گھومتے پھرتے ہیں۔ زید بن عاصم کا قول ہے کہ آسمان و زمین کے درمیان فلک میں یہ سب آ جا رہے ہیں، لیکن یہ بہت غریب بلکہ منکر قول ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں فلک مثل چرخے کے تکلے کے ہے بعض کہتے ہیں مثل چکی کے لوہے کے پاٹ کے۔