قرآن مجيد

سورة فاطر
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ[5]
اے لوگو! یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے تو کہیں دنیا کی زندگی تمھیں دھوکے میں نہ ڈال دے اور کہیں وہ دھوکے باز تمھیں اللہ کے بارے میں دھوکا نہ دے جائے۔[5]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 4، 5، 6،

مایوسی کی ممانعت ٭٭

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ کے زمانے کے کفار آپ کی مخالفت کریں اور آپ کی بتائی ہوئی توحید اور خود آپ کی سچی رسالت کو جھٹلائیں۔ تو آپ شکستہ دل نہ ہو جایا کریں۔ اگلے نبیوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا۔ سب کاموں کا مرجع اللہ کی طرف ہے۔ وہ سب کو ان کے تمام کاموں کے بدلا دے گا اور سزا جزا سب کچھ ہو گی، لوگو قیامت کا دن حق ہے وہ یقیناً آنے والا ہے وہ وعدہ اٹل ہے۔ وہاں کی نعمتوں کے بدلے یہاں کے فانی عیش پر الجھ نہ جاؤ۔ دنیا کی ظاہری عیش کہیں تمہیں وہاں کی حقیقی خوشی سے محروم نہ کر دے۔ اسی طرح شیطان مکار سے بھی ہوشیار رہنا۔ اس کے چلتے پھرتے جادو میں نہ پھنس جانا۔ اس کی جھوٹی اور چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اللہ رسول کے حق کلام کو نہ چھوڑ بیٹھنا۔ سورۃ لقمان کے آخر میں بھی یہی فرمایا ہے۔ پس غرور یعنی دھوکے باز یہاں شیطان کو کہا گیا ہے۔ جب مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان قیامت کے دن دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں دروازہ ہو گا۔ جس کے اندرونی حصے میں رحمت ہو گی اور ظاہری حصے میں عذاب ہو گا اس وقت منافقین مومنین سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہ تھے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں ساتھ تو تھے لیکن تم نے تو اپنے تئیں فتنے میں ڈال دیا تھا اور سوچتے ہی رہے شک شبہ دور ہی نہ کیا خواہشوں کو پورا کرنے میں ڈوبے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ پہنچا اور دھوکے باز شیطان نے تمہیں بہلا وے میں ہی رکھا۔ اس آیت میں بھی شیطان کو غرور کہا گیا ہے، پھر شیطانی دشمنی کو بیان کیا کہ وہ تو تمہیں مطلع کر کے تمہاری دشمنی اور بربادی کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے۔ پھر تم کیوں اس کی باتوں میں آ جاتے ہو؟ اور اس کے دھوکے میں پھنس جاتے ہو؟ اس کی اور اس کی فوج کی تو عین تمنا ہے کہ وہ تمہیں بھی اپنے ساتھ گھسیٹ کر جہنم میں لے جائے۔ اللہ تعالیٰ قوی و عزیز سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں شیطان کا دشمن ہی رکھے اور اس کے مکر سے ہمیں محفوظ رکھے اور اپنی کتاب اور اپنے نبی کی سنتوں کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ ہرچیز پر قادر ہے اور دعاؤں کا قبول فرمانے والا ہے۔ جسطرح اس آیت میں شیطان کی دشمنی کا بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ الکہف کی آیت «وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖۭ اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗوَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ للظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا» ، [18-الكهف:50] ‏‏‏‏ میں بھی اس کی دشمنی کا ذکر ہے۔