اور بلاشبہ یقینا ہم نے دائود کو اپنی طرف سے بڑا فضل عطا کیا، اے پہاڑو! اس کے ساتھ تسبیح کو دہرائو اور پرندے بھی اور ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کر دیا۔[10]
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول داؤد علیہ السلام پر دنیوی اور اخروی رحمت نازل فرمائی۔ نبوت بھی دی بادشاہت بھی دی لاؤ لشکر بھی دیئے طاقت و قوت بھی دی۔ پھر ایک پاکیزہ معجزہ عطا فرمایا کہ ادھر نغمہ داؤدی ہوا میں گونجا، ادھر پہاڑوں اور پرندوں کو بھی وجد آ گیا۔ پہاڑوں نے آواز میں آواز ملا کر اللہ کی حمد و ثناء شروع کی پرندوں نے پر ہلانے چھوڑ دیئے اور اپنی قسم قسم کی پیاری پیاری بولیوں میں رب کی وحدانیت کے گیت گانے لگے۔
صحیح حدیث میں ہے کہ رات کو سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے جسے سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے دیر تک سنتے رہے پھر فرمانے لگے انہیں نغمہ داؤدی کا کچھ حصہ مل گیا ہے [صحیح مسلم:793] ۔
ابوعثمان نہدی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ واللہ! ہم نے سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے زیادہ پیاری آواز کسی باجے کی بھی نہیں سنی۔
«اوبی» کے معنی حبشی زبان میں یہ ہیں کہ تسبیح بیان کرو۔ لیکن ہمارے نزدیک اس میں مزید غور کی ضرورت ہے لغت عرب میں یہ لفظ ترجیع کے معنی میں موجود ہے۔ پس پہاڑوں کو اور پرندوں کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ داؤد علیہ السلام کی آواز کے ساتھ اپنی آواز بھی ملا لیا کریں۔ «تاویب» کے ایک معنی دن کو چلنے کے بھی آتے ہیں۔
جیسے «سری» کے معنی رات کو چلنے کے ہیں لیکن یہ معنی بھی یہاں کچھ زیادہ مناسبت نہیں رکھتا یہاں تو یہی مطلب ہے کہ داؤد علیہ السلام کی تسبیح کی آواز میں تم بھی آواز ملا کر خوش آوازی سے رب کی حمد و ثناء بیان کرو۔
اور فضل ان پر یہ ہوا کہ ان کے لئے لوہا نرم کر دیا گیا نہ انہیں لوہے کی بھٹی میں ڈالنے کی ضرورت نہ ہتھوڑے مارنے کی حاجت ہاتھ میں آتے ہی ایسا ہو جاتا تھا جیسے دھاگے، اب اس لوہے سے بفرمان اللہ آپ زرہیں بناتے تھے۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے زرہ آپ ہی نے ایجاد کی ہے۔ ہر روز صرف ایک زرہ بناتے اس کی قیمت چھ ہزار لوگوں کے کھلانے پلانے میں صرف کر دیتے۔
زرہ بنانے کی ترکیب خود اللہ کی سکھائی ہوئی تھی کہ کڑیاں ٹھیک ٹھیک رکھیں حلقے چھوٹے نہ ہوں کہ ٹھیک نہ بیٹھیں بہت بڑے نہ ہوں کہ ڈھیلا پن رہ جائے بلکہ ناپ تول اور صحیح اندازے سے حلقے اور کڑیاں ہوں۔
ابن عساکر میں ہے داؤد علیہ السلام بھیس بدل کر نکلا کرتے اور رعایا کے لوگوں سے مل کر ان سے اور باہر کے آنے جانے والوں سے دریافت فرماتے کہ داؤد کیسا آدمی ہے؟ لیکن ہر شخص کو تعریفیں کرتا ہوا ہی پاتے۔ کسی سے کوئی بات اپنی نسبت قابل اصلاح نہ سنتے۔
ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو انسانی صورت میں نازل فرمایا۔ داؤد علیہ السلام کی ان سے بھی ملاقات ہوئی تو جیسے اوروں سے پوچھتے تھے ان سے بھی سوال کیا انہوں نے کہا داؤد ہے تو اچھا اگر ایک کمی اس میں نہ ہوتی تو کامل بن جاتا۔ آپ نے بڑی رغبت سے پوچھا کہ وہ کیا؟ فرمایا وہ اپنا بوجھ مسلمانوں کے بیت المال پر ڈالے ہوئے ہیں خود بھی اسی میں سے لیتا ہے اور اپنی اہل و عیال کو اسی میں سے کھلاتا ہے۔ داؤد علیہ السلام کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ شخص ٹھیک کہتا ہے اسی وقت جناب باری کی طرف جھک پڑے اور گریہ و زاری کے ساتھ دعائیں کرنے لگے کہ اللہ مجھے کوئی کام کاج ایسا سکھا دے جس سے میرا پیٹ بھر جایا کرے۔ کوئی صنعت اور کاریگری مجھے بتا دے جس سے میں اتنا حاصل کر لیا کروں کہ وہ مجھے اور میرے بال بچوں کو کافی ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زرہیں بنانا سکھائیں اور پھر اپنی رحمت سے لوہے کو ان کے لئے بالکل نرم کر دیا۔ سب سے پہلے زرہیں آپ نے ہی بنائی ہیں۔ ایک زرہ بنا کر فروخت فرماتے اور اس کی قیمت کے تین حصے کرتے ایک اپنے کھانے پینے وغیرہ کے لئے ایک صدقے کے لئے ایک رکھ چھوڑتے تاکہ دوسری زرہ بنانے تک اللہ کے بندوں کو دیتے رہیں۔ داؤد علیہ السلام کو جو نغمہ دیا گیا تھا وہ تو محض بے نظیر تھا۔
اللہ کی کتاب زبور پڑھنے بیٹھتے۔ تو آواز نکلتے ہی چرند صبر و سکون کے ساتھ محویت کے عالم میں آپ کی آواز سے متاثر ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت میں مشغول ہو جاتے۔ سارے باجے شیاطین نے نغمہ داؤدی سے نکالے ہیں۔
آپ کی بے مثل خوش آواز کی یہ چڑاؤنی جیسی نقلیں ہیں۔ اپنی ان نعمتوں کو بیان فرما کر حکم دیتا ہے کہ اب تمہیں بھی چاہئے کہ نیک اعمال کرتے رہو۔ میرے فرمان کے خلاف نہ کرو۔ یہ بہت بری بات ہے کہ جس کے اتنے بڑے اور بےپایاں احسان ہوں۔ اس کی فرمانبرداری ترک کر دی جائے۔ میں تمہارے اعمال کا نگران ہوں۔ تمہارا کوئی عمل چھوٹا بڑا نیک بد مجھ سے پوشیدہ نہیں۔