قرآن مجيد

سورة الأحزاب
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا[45]
اے نبی! بے شک ہم نے تجھے گواہی دینے والا اور خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔[45]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 45، 46، 47، 48،

تورات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات ٭٭

عطابن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں تورات میں کیا ہیں؟ فرمایا جو صفتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآن میں ہیں انہی میں بعض اوصاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تورات میں بھی ہیں۔ تورات میں ہے ” اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور خوشی سنانے والا، ڈرانے والا، امتیوں کو بچانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تو میرا بندہ اور رسول ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو بدگو اور فحش کلام نہیں ہے، نہ بازاروں میں شور مچانے والا۔ وہ برائی کے بدلے برائی نہیں کرتا بلکہ در گزر کرتا ہے، اور معاف فرماتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ قبض نہیں کرے گا، جب تک لوگوں کو ٹیڑھا کر دئیے ہوئے دین کو اس کی ذات سے بالکل سیدھا نہ کر دے اور وہ «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کے قائل نہ ہو جائیں، جس سے اندھی آنکھیں روشن ہو جائیں، اور بہرے کان سننے والے بن جائیں، اور پردوں والے دلوں کے زنگ چھوٹ جائیں “ ۔ [صحیح بخاری:4838] ‏‏‏‏

ابن ابی حاتم میں ہے وہیب بن منبہ فرماتے ہیں بنی اسرائیل کے ایک نبی شعیب علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ ” اپنی قوم بنی اسرائیل میں کھڑے ہو جاؤ، میں تمہاری زبان سے اپنی باتیں کہلواؤں گا۔ میں امیوں میں سے ایک نبی امی کو بھیجنے والا ہوں جو نہ بدخلق ہے نہ بد گو۔ نہ بازاروں میں شور و غل کرنے والا۔ اس قدر سکون و امن کا حامل ہے کہ اگر چراغ کے پاس سے بھی گزر جائے تو وہ نہ بجھے اور اگر بانسوں پر بھی چلے تو پیر کی چاپ نہ معلوم ہو۔ میں اسے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجوں گا۔

جو حق گو ہو گا اور میں اس کی وجہ سے اندھی آنکھوں کو کھول دوں گا اور بہرے کانوں کو سننے والا کروں گا اور زنگ آلود دلوں کو صاف کردوں گا۔ ہر بھلائی کی طرف اس کی ضمیر ہوگی۔ حکمت اس کی گویائی ہوگی۔ صدق و وفا اس کی عادت ہوگی۔ عفو و در گزر اس کا خلق ہوگا۔ حق اس کی شریعت ہوگی۔ عدل اس کی سیرت ہو گی۔ ہدایت اس کی امام ہوگی اسلام اس کا دین ہوگا۔ احمد اس کا نام ہوگا۔

گمراہوں کو میں اس کی وجہ سے ہدایت دوں گا۔ جاہلوں کو اس کی بدولت علماء بنا دوں گا۔ تنزل والوں کو ترقی پر پہنچا دوں گا۔ انجانوں کو مشہور و معروف کر دوں گا۔ مختلف اور متضاد دلوں کو متفق اور متحد کر دوں گا۔ جداگانہ خواہشوں کو یکسو کر دوں گا۔ دنیا کو اس کی وجہ سے ہلاکت سے بچا لوں گا۔ تمام امتوں سے اس کی امت کو اعلیٰ اور افضل بنا دوں گا۔ وہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے دنیا میں پیدا کئے جائیں گے۔ ہر ایک کو نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔ وہ موحد ہوں گے، مومن ہوں گے، اخلاص والے ہوں گے، رسولوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے سب کو سچ ماننے والے ہوں گے۔

وہ اپنی مسجدوں مجلسوں اور بستروں پر چلتے پھرتے بیٹھے اٹھتے میری تسبیح حمد و ثنا بزرگی اور بڑائی بیان کرتے رہیں گے۔ کھڑے اور بیٹھے نمازیں ادا کرتے رہیں گے۔ دشمنان اللہ سے صفیں باندھ کر حملہ کر کے جہاد کریں گے۔ ان میں سے ہزارہا لوگ میری رضا مندی کی جستجو میں اپنا گھربار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوں گے۔ منہ ہاتھ وضو میں دھویا کریں گے۔ تہمد آدھی پنڈلی تک باندھیں گے۔ میری راہ میں قربانیاں دیں گے۔ میری کتاب ان کے سینوں میں ہوگی۔ راتوں کو عابد اور دنوں کو مجاہد ہوں گے۔ میں اس نبی کی اہل بیت اور اولاد میں سبقت کرنے والے صدیق شہید اور صالح لوگ پیدا کر دوں گا “
۔

” اس کی امت اس کے بعد دنیا کو حق کی ہدایت کرے گی، اور حق کے ساتھ عدل و انصاف کرے گی۔ ان کی امداد کرنے والوں کو میں عزت والا کروں گا۔ اور ان کو بلانے والوں کی مدد کروں گا۔ ان کے مخالفین اور ان کے باغی اور ان کے بدخواہوں پر میں برے دن لاؤں گا۔ میں انہیں ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث کر دوں گا۔ جو اپنے رب کی طرف لوگوں کو دعوت دیں گے۔ نیکیوں کی باتیں بتائیں گے، برائیوں سے روکیں گے، نماز ادا کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، وعدے پورے کریں گے، اس خیر کو میں ان کے ہاتھوں پوری کروں گا جو ان سے شروع ہوئی تھی۔ یہ ہے میرا فضل جسے چاہوں دوں۔ اور میں بہت بڑے فضل و کرم کا مالک ہوں “۔

ابن ابی خاتم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیج رہے تھے جب یہ آیت اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: جاؤ خوشخبریاں سنانا نفرت نہ دلانا، آسانی کرنا سختی نہ کرنا، دیکھو مجھ پر یہ آیت اتری ہے ۔ [طبرانی کبیر:11841:ضعیف] ‏‏‏‏

طبرانی میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر یہ اترا ہے کہ ” اے نبی ہم نے تجھے تیری امت پر گواہ بنا کر جنت کی خوشخبری دینے والا بنا کر جہنم سے ڈرانے والا بنا کر اور اللہ کے حکم سے اس کی توحید کی شہادت کی طرف لوگوں کو بلانے والا بنا کر اور روشن چراغ قرآن کے ساتھ بنا کر بھیجا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی وحدانیت پر کہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں گواہ ہیں، اور قیامت کے دن آپ لوگوں کے اعمال پر گواہ ہوں گے “ ۔ [مجمع الزوائد:92/7:ضعیف] ‏‏‏‏

جیسے ارشاد ہے «وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاءِ شَهِيْدًا» [4-النساء:41] ‏‏‏‏ یعنی ” ہم تجھے ان پر گواہ بنا کر لائیں گے “۔

اور آیت میں ہے کہ «لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا» [2-البقرة:143] ‏‏‏‏ ” تم لوگوں پر گواہ ہو اور تم پر یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گواہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کو بہترین اجر کی بشارت سنانے والے اور کافروں کو بدترین عذاب کاڈر سنانے والے ہیں “۔

اور چونکہ اللہ کا حکم ہے اس کی بجا آوری کے ماتحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق کو خالق کی عبادت کی طرف بلانے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اس طرح ظاہر ہے جیسے سورج کی روشنی۔ ہاں کوئی ضدی اڑ جائے تو اور بات ہے۔

” اے نبی! کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو نہ ان کی طرف کان لگاؤ اور ان سے در گزر کرو۔ یہ جو ایذائیں پہنچاتے ہیں انہیں خیال میں بھی نہ لاؤ اور اللہ پر پورا بھروسہ کرو وہ کافی ہے “۔