کہہ دے اے اہل کتاب! آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان برابر ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائے، پھر اگر وہ پھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ بے شک ہم فرماں بردار ہیں۔[64]
یہودیوں نصرانیوں اور انہی جیسے لوگوں سے یہاں خطاب ہو رہا ہے، کلمہ کا اطلاق مفید جملے پر ہوتا ہے، جیسے یہاں کلمہ کہہ کر پھر «سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ» الخ کے ساتھ اس کی تعریف یوں کی گئی ہے۔ «سَوَاءٍ» کے معنی عدل و انصاف جیسے ہم کہیں ہم تم برابر ہیں، پھر اس کی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ ہم ایک اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی بت کو نہ پوجیں صلیب، تصویر، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور نہ آگ کو نہ اور کسی چیز کو بلکہ تنہا اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں، یہی عبادت تمام انبیاء کرام علیہ السلام کی تھی، جیسے فرمان ہے «وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ» [21-الأنبياء:25] یعنی تجھ سے پہلے جس جس رسول کو ہم نے بھیجا سب کی طرف یہی وحی کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کیا کرو
اور جگہ ارشاد ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ» [16-النحل:36] یعنی ہر امت میں رسول بھیج کر ہم نے یہ اعلان کروایا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا سب سے بچو۔
پھر فرماتا ہے کہ آپس میں بھی ہم اللہ جل جلالہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں، ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ایک دوسرے کی اطاعت نہ کریں۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کسی کو سوائے اللہ تعالیٰ کے سجدہ نہ کریں، پھر اگر یہ لوگ اس حق اور عدل دعوت کو بھی قبول نہ کریں تو انہیں تم اپنے مسلمان ہونے کا گواہ بنا لو۔
ہم نے بخاری کی شرح میں اس واقعہ کا مفصل ذکر کر دیا ہے جس میں ہے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ جبکہ دربار قیصر میں بلوائے گئے اور شاہ قیصر روم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کا حال پوچھا تو انہیں کافر اور دشمن رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کے باوجود آپ کی خاندانی شرافت کا اقرار کرنا پڑا اور اسی طرح ہر سوال کا صاف اور سچا جواب دینا پڑا
یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے بعد کا اور فتح مکہ سے پہلے کا ہے اسی باعث قیصر کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) بدعہدی کرتے ہیں؟ ابوسفیان نے کہا نہیں کرتے لیکن اب ایک معاہدہ ہمارا ان سے ہوا ہے نہیں معلوم اس میں وہ کیا کریں؟ یہاں صرف یہ مقصد ہے کہ ان تمام باتوں کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پیش کیا جاتا ہے جس میں بسم اللہ کے بعد یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ خط محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے جو اللہ کے رسول ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ہرقل کی طرف جو روم کا شاہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام ہو اسے جو ہدایت کا تابعدار ہو اس کے بعد اسلام قبول کر سلامت رہے گا، اسلام قبول کر اللہ تعالیٰ تجھے دوہرا اجر دے گا اور اگر تو نے منہ موڑا تو تمام رئیسوں کے گناہوں کا بوجھ تجھ پر پڑے گا پھر یہی آیت لکھی تھی،
امام محمد بن اسحاق وغیرہ نے لکھا ہے کہ اس سورت یعنی سورۃ آل عمران کو شروع سے لے کر «اننی» سے کچھ اوپر تک آیتیں وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئی ہیں،
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سب سے پہلے جزیہ انہی لوگوں نے ادا کیا ہے اور اس بات میں بھی مطلقاً اختلاف نہیں ہے کہ آیت جزیہ فتح مکہ کے بعد اتری ہے پس یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب یہ آیت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے تو پھر فتح سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خط میں ہرقل کو یہ آیت کیسے لکھی؟ اس کے جواب کئی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ ممکن ہے یہ آیت دو مرتبہ اتری ہو اول حدیبیہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد،
دوسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے شروع سورت سے لے کر اس آیت تک وفد نجران کے بارے میں اتری ہو یا یہ آیت اس سے پہلے اتر چکی ہو اس صورت میں ابن اسحاق رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ اسی(80) کے اوپر اوپر کی کچھ آیتیں اسی وفد کے بارے میں اتری ہیں یہ محفوظ نہ ہو کیونکہ ابوسفیان والا واقعہ سراسر اس کے خلاف ہے،
تیسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے وفد نجران حدیبیہ سے پہلے آیا ہو اور انہوں نے جو کچھ دینا منظور کیا ہو یہ صرف مباہلہ سے بچنے کے لیے بطور مصالحت کے ہو نہ کہ جزیہ دیا ہو اور یہ اتفاق کی بات ہو کہ آیت جزیہ اس واقعہ کے بعد اتری جس سے اس کا اتفاقاً الحاق ہو گیا۔
جیسے کہ عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ نے بدر سے پہلے غزوے کے مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا اور پانچواں حصہ باقی رکھ کر دوسرے حصے لشکر میں تقسیم کر دیئے، پھر اس کے بعد مال غنیمت کی تقسیم کی آیتیں بھی اسی کے مطابق اتریں اور یہی حکم ہوا۔
چوتھا جواب یہ ہے کہ احتمال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خط میں جو ہرقل کو بھیجا اس میں یہ بات اسی طرح بطور خود لکھی ہو پھر نبی کریم کے الفاظ ہی میں وحی نازل ہوئی ہو جیسے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پردے کے حکم کے بارے میں اسی طرح آیت اتری، اور بدوی قیدیوں کے بارے میں انہی کے ہم خیال فرمان باری نازل ہوا اسی طرح منافقوں کا جنازہ پڑھنے کی بابت بھی انہی کی بات قائم رکھی گئی، چنانچہ مقام ابراہیم کو مصلےٰ بنانے سے متعلق بھی اسی طرح وحی نازل ہوئی «وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى» [2-البقرة:125] اور «عَسٰى رَبُّهٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا» [66-التحريم:5] بھی انہی کے خیال سے متعلق آیت اتری، پس یہ آیت بھی اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہی اتری ہو، یہ بہت ممکن ہے۔