قرآن مجيد

سورة الأحزاب
وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا[3]
اور اللہ پر بھروسا کر اور اللہ وکیل کی حیثیت سے کافی ہے۔[3]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3،

اللہ پر توکل رکھو ٭٭

تنبیہ کی ایک موثر صورت یہ بھی ہے کہ بڑے کو کہا جائے تاکہ چھوٹا چوکنا ہو جائے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوئی بات تاکید سے کہے تو ظاہر ہے کہ اوروں پر وہ تاکید اور بھی زیادہ ہے۔

تقویٰ اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ثواب کے طلب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے۔ اور فرمان باری کے مطابق اس کے عذابوں سے بچنے کے لیے اس کی نافرمانیاں ترک کی جائیں۔

کافروں اور منافقوں کی باتیں نہ ماننا نہ ان کے مشوروں پر کاربند ہونا نہ ان کی باتیں قبولیت کے ارادے سے سننا۔ علم وحکمت کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

چونکہ وہ اپنے وسیع علم سے ہر کام کا نتیجہ جانتا ہے اور اپنی بے پایاں حکمت سے اس کی کوئی بات، کوئی فعل غیر حکیمانہ نہیں ہوتا تو، تو اسی کی اطاعت کرتا رہ تاکہ بد انجام سے اور بگاڑ سے بچا رہے۔

جو قرآن وسنت تیری طرف وحی ہو رہا ہے اس کی پیروی کر اللہ پر کسی کا کوئی فعل مخفی نہیں۔ اپنے تمام امور واحوال میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی بھروسہ رکھ۔ اس پر بھروسہ کرنے والوں کو وہ کافی ہے۔ کیونکہ تمام کارسازی پر وہ قادر ہے اس کی طرف جھکنے والا کامیاب ہی کامیاب ہے۔