قرآن مجيد

سورة الروم
وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ كَذَلِكَ كَانُوا يُؤْفَكُونَ[55]
اور جس دن قیامت قائم ہوگی مجرم قسمیں کھائیں گے کہ وہ ایک گھڑی کے سوا نہیں ٹھہرے۔ اسی طرح وہ بہکائے جاتے تھے۔[55]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 55، 56، 57،

واپسی ناممکن ہو گی ٭٭

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ” کفار دنیا اور آخرت کے کاموں سے بالکل جاہل ہیں۔ دنیا میں ان کی جہالت تو یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ اوروں کو شریک کرتے رہے اور اخرت میں یہ جہالت کریں گے کہ قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہم دنیا میں صرف ایک ساعت ہی رہے “۔

اس سے ان کامقصد یہ ہو گا کہ اتنے تھوڑے سے وقت میں ہم پر کوئی حجت قائم نہیں ہوئی۔ ہمیں معذور سمجھا جائے۔ اسی لیے فرمایا کہ ” یہ جیسے یہاں بہکی بہکی باتیں کررے ہیں دنیا میں یہ بہکے ہوئے ہی رہے “۔

فرماتا ہے کہ ” علماء کرام جس طرح ان کے اس کہنے پر دنیا میں انہیں دلائل دے کر قائل معقول کرتے رہے آخرت میں بھی ان سے کہیں گے کہ تم جھوٹی قسمیں کھا رہے ہو “۔

تم کتاب اللہ یعنی کتاب اعمال میں اپنی پیدائش سے لے کر جی اٹھنے تک ٹھہرے رہے لیکن تم بےعلم اور نرے جاہل لوگ ہو۔ پس قیامت کے دن ظالموں کو اپنے کرتوت سے معذرت کرنا محض بےسود رہے گا۔ اور دنیا کی طرف لوٹائے نہ جائیں گے۔

جیسے فرمان ہے آیت «وَاِنْ يَّسْـتَعْتِبُوْا فَمَا هُمْ مِّنَ الْمُعْتَـبِيْنَ» ‏‏‏‏ [41-فصلت:24] ‏‏‏‏ یعنی ” اگر وہ دنیا کی طرف لوٹنا چاہیں تو لوٹ نہیں سکتے “۔