قرآن مجيد

سورة آل عمران
رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ[53]
اے ہمارے رب! ہم اس پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمایا اور ہم رسول کے پیرو کار بن گئے، سو تو ہمیں شہادت دینے والوں کے ساتھ لکھ لے۔[53]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 52، 53، 54،

پھانسی کون چڑھا؟ ٭٭

جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ لیا کہ اپنی گمراہی کج روی اور کفر و انکار سے یہ لوگ ہٹتے ہی نہیں، تو فرمانے لگے کہ کوئی ایسا بھی ہے؟ جو اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچنے کے لیے میری تابعداری کرے [تفسیر ابن ابی حاتم:290/3] ‏‏‏‏ اس کا یہ مطلب بھی لیا گیا ہے کہ کوئی ہے جو اللہ جل شانہ کے ساتھ میرا مددگار بنے؟ لیکن پہلا قول زیادہ قریب ہے، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے فرمایا اللہ جل شانہ کی طرف پکارنے میں میرا ہاتھ بٹانے والا کون ہے؟ جیسے کہ نبی اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف سے ہجرت کرنے کے پہلے موسم حج کے موقع پر فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو مجھے اللہ جل شانہ کا کلام پہنچانے کے لیے جگہ دے؟ قریش تو کلام الٰہی کی تبلیغ سے مجھے روک رہے ہیں [مسند احمد:339/3:حسن] ‏‏‏‏

یہاں تک کہ مدینہ شریف کے باشندے انصار کرام رضی اللہ عنہم اس خدمت کے لیے کمربستہ ہوئے آپ کو جگہ بھی دی آپ کی مدد بھی کی اور جب آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے تو پوری خیر خواہی اور بے مثال ہمدردی کا مظاہرہ کیا، ساری دنیا کے مقابلہ میں اپنا سینہ سپر کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت خیر خواہی اور آپ کے مقاصد کی کامیابی میں ہمہ تن مصروف ہو گئے «رضی الله عنهم وارضاهم»

اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اس آواز پر بھی چند بنی اسرائیلیوں نے لبیک کہی آپ پر ایمان لائے آپ کی تائید کی تصدیق کی اور پوری مدد پہنچائی اور اس نور کی اطاعت میں لگ گئے جو اللہ ذوالجلال نے ان پر اتارا تھا یعنی انجیل یہ لوگ دھوبی تھے اور حواری انہیں ان کے کپڑوں کی سفیدی کی وجہ سے کہا گیا ہے، بعض کہتے ہیں یہ شکاری تھے، صحیح یہ ہے کہ حواری کہتے ہیں مددگار کو،

جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جنگ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کوئی جو سینہ سپر ہو جائے؟ اس آواز کو سنتے ہی سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ تیار ہو گئے آپ نے دوبارہ یہی فرمایا پھر بھی سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے ہی قدم اٹھایا پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرا حواری زبیر ہے رضی اللہ عنہ۔ [صحیح بخاری:2846] ‏‏‏‏

پھر یہ لوگ اپنی دعا میں کہتے ہیں ہمیں شاہدوں میں لکھ لے، اس سے مراد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھ لینا ہے [تفسیر ابن ابی حاتم:294/2] ‏‏‏‏، اس تفسیر کی روایت سنداً بہت عمدہ ہے

پھر بنی اسرائیل کے اس ناپاک گروہ کا ذکر ہو رہا ہے جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے جانی دشمن تھے۔ انہیں مروا دینے اور سولی دئیے جانے کا قصد رکھتے تھے جنہوں نے اس زمانی کے بادشاہ کے کان میں سیدنا عیسٰی علیہ السلام کی طرف سے بھرے تھے کہ یہ شخص لوگوں کو بہکاتا پھرتا ہے ملک میں بغاوت پھیلا رہا ہے اور رعایا کو بگاڑ رہا ہے، باپ بیٹوں میں فساد برپا کر رہا ہے، بلکہ اپنی خباثت خیانت کذب و جھوٹ [ دروغ ] ‏‏‏‏ میں یہاں تک بڑھ گئے کہ آپ کو زانیہ کا بیٹا کہا اور آپ پر بڑے بڑے بہتان باندھے، یہاں تک کہ بادشاہ بھی دشمن جان بن گیا اور اپنی فوج کو بھیجا تاکہ اسے گرفتار کر کے سخت سزا کے ساتھ پھانسی دے دو، چنانچہ یہاں سے فوج جاتی ہے اور جس گھر میں آپ تھے اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے ناکہ بندی کر کے گھر میں گھستی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو ان مکاروں کے ہاتھ سے صاف بچا لیتا ہے اس گھر کے روزن [ روشن دان ] ‏‏‏‏ سے آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیتا ہے اور آپ کی شباہت ایک اور شخص پر ڈال دی جاتی ہے جو اسی گھر میں تھا

، یہ لوگ رات کے اندھیرے میں اس کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھ لیتے ہیں گرفتار کر کے لے جاتے ہیں٠ سخت توہین کرتے ہیں اور سر پر کانٹوں کو تاج رکھ کر اسے صلیب پر چڑھا دیتے ہیں، یہی ان کے ساتھ اللہ کا مکر تھا کہ وہ تو اپنے نزدیک یہ سمجھتے رہے کہ ہم نے اللہ کے نبی کو پھانسی پر لٹکا دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تو نجات دے دی تھی، اس بدبختی اور بدنیتی کا ثمرہ انہیں یہ ملا کہ ان کے دل ہمیشہ کے لیے سخت ہو گئے باطل پر اڑ گئے اور دنیا میں ذلیل و خوار ہو گئے اور آخر دنیا تک اس ذلت میں ہی ڈوبے رہے۔

اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ اگر انہیں خفیہ تدبیریں کرنی آتی ہیں تو کیا ہم خفیہ تدبیر کرنا نہیں جانتے بلکہ ہم تو ان سے بہتر خفیہ تدبیریں کرنے والے ہیں۔