” ملت ابراہیم حنیف پر جم جاؤ جس دین کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مقرر کر دیا ہے اور جسے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ہاتھ پر اللہ نے کمال کو پہنچایا ہے “۔
رب کی فطرت سلیمہ پر وہی قائم ہے جو اس دین اسلام کا پابند ہے۔ اسی پر یعنی توحید پر رب نے تمام انسانوں کو بنایا ہے۔ روز اول میں اسی کا سب سے اقرار کرا لیا گیا تھا کہ «وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى»” کیا میں سب کا رب نہیں ہوں؟ تو سب نے اقرار کیا کہ بیشک تو ہی ہمارا رب ہے “۔ [7-الأعراف:172]
وہ حدیثیں عنقریب ان شاءاللہ بیان ہونگی جن سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جملہ مخلوق کو اپنے سچے دین پر پیدا کیا ہے گو اس کے بعد لوگ یہودیت نصرانیت وغیرہ پر چلے گئے۔
” لوگو! اللہ کی اس فطرت کو نہ بدلو۔ لوگوں کو اس راہ راست سے نہ ہٹاؤ “۔ تو یہ خبر معنی میں امر ہوگی جیسے آیت «وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا» ۔ [3-آل عمران:97] میں یہ معنی نہایت عمدہ اور صحیح ہیں۔
دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو فطرت سلیمہ پر یعنی دین اسلام پر پیدا کیا۔ رب کے اس دین میں کوئی تبدل و تغیر نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی معنی کئے ہیں کہ ”یہاں خلق اللہ سے مراد دین اور فطرت اسلام ہے۔“ [صحیح بخاری:تفسیر سورۃ الروم] ۔
بخاری شریف میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔ جیسے بکری کا صحیح سالم بچہ ہوتا ہے جس کے کان لوگ کتر دیتے ہیں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی «فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ» [صحیح بخاری:4775]
مسند احمد میں ہے اسود بن سریع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کیا وہاں ہم بفضل اللہ غالب آگئے۔ اس دن لوگوں نے بہت سے کفار کو قتل کیا یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو بھی قتل کر ڈالا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے لوگ حد سے آگے نکل جاتے ہیں آج بچوں کو بھی قتل کر دیا ہے ۔ کسی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر وہ بھی تو مشرکین کی ہی اولاد تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں نہیں۔ یاد رکھو تم میں سے بہترین لوگ مشرکین کے بچے ہیں۔ خبردار بچوں کو کبھی قتل نہ کرنا، نابالغوں کے قتل سے رک جانا۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اپنی زبان سے کچھ کہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہود نصرانی بنا لیتے ہیں ۔ [مسند احمد:435/3:صحیح]
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مسند شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اسے زبان آ جائے۔ اب یا تو شاکر بنتا ہے یا کافر ۔ [مسند احمد:353/3:ضعیف] ۔
مسند میں بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ حضور علیہ السلام سے مشرکوں کی اولاد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا وہ خوب جانتا تھا کہ وہ کیا اعمال کرنے والے ہیں ۔ [صحیح بخاری:1383] ۔
آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک زمانہ میں میں کہتا تھا مسلمانوں کی اولاد مسلمانوں کے ساتھ ہے اور مشرکوں کی اولاد مشرکوں کے ساتھ ہے یہاں تک کہ فلاں شخص نے فلاں سے روایت کر کے مجھے سنایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ خوب عالم ہے اس چیز سے جو وہ کرتے ۔ اس حدیث کو سن کر میں نے اپنا فتویٰ چھوڑ دیا [مسند احمد:73/5:صحیح] ۔
عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ مجھے جناب باری عزوجل نے حکم دیا کہ جو اس نے مجھے آج سکھایا ہے اور اس سے تم جاہل ہو وہ میں تمہیں سکھا دوں ۔ فرمایا کہ ” جو میں نے اپنے بندوں کو دیا ہے میں نے ان کے لیے حلال کیا ہے میں نے اپنے سب بندوں کو یک طرفہ خالص دین والا بنایا ہے،ان کے پاس شیطان پہنچتا ہے اور انہیں دین سے گمراہ کرتا ہے اور حلال کو ان پر حرام کرتا ہے اور انہیں میرے ساتھ شریک کرنے کو کہتا ہے جس کی کوئی دلیل نہیں “۔
اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف نگاہ ڈالی اور عرب وعجم سب کو ناپسند فرمایا سوائے چند اہل کتاب کے کچھ لوگوں کے۔ وہ فرماتا ہے کہ ” میں نے تجھے صرف آزمائش کے لیے بھیجا ہے تیری اپنی بھی آزمائش ہوگی اور تیری وجہ سے اور سب کی بھی میں تو تجھ پر وہ کتاب اتارونگا جسے پانی دھو نہ سکے تو اسے سوتے جاگتے پڑھتا رہے گا “۔
پھر مجھ سے جناب باری عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ میں قریش کو ہوشیار کر دوں میں نے اپنا اندیشہ ظاہر کیا کہ کہیں وہ میرا سر کچل کر روٹی جیسا نہ بنادیں؟ تو فرمایا ” سن جیسے یہ تجھے نکالیں گے میں انہیں نکالونگا تو ان سے جہاد کر میں تیرا ساتھ دونگا تو خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔ تو لشکر بھیج میں اس سے پانچ حصے زیادہ لشکر بھیجوں گا فرمانبرداروں کو لیکر اپنے نافرمانوں پر چڑھائی کر دے “۔
اہل جنت تین قسم کے ہیں عادل بادشاہ توفیق خیر والا سخی۔ نرم دل ہر مسلمان کے ساتھ سلوک احسان کرنے والا پاک دامن، سوال اور حرام سے بچنے والا عیالدار آدمی،۔ اہل جہنم پانچ قسم کے لوگ ہیں وہ بے وقعت،کمینے لوگ جو بے زر اور بے گھر ہیں جو تمہارے دامنوں میں لپٹے رہتے ہیں۔ وہ خائن جو حقیر چیزوں میں بھی خیانت کئے بغیر نہیں رہتا۔ وہ لوگ جو ہر وقت لوگوں کو ان کی جان مال اور اہل و عیال میں دھوکے دیتے رہتے ہیں صبح شام چالبازیوں اور مکر و فریب میں لگے رہتے ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخیلی یا کذاب کا ذکر کیا اور فرمایا پانچوں قسم کے لوگ بدزبان بدگو ہیں ۔ [صحیح مسلم:2765]
یہی فطرت سلیمہ یہی شریعت کو مضبوطی سے تھامے رہنا ہی سچا اور سیدھا دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ بے علم ہیں۔ اور اپنی اسی جہالت کی وجہ سے اللہ کے ایسے پاک دین سے دور بلکہ محروم رہ جاتے ہیں۔
جیسے ایک اور آیت میں ہے «وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ»” گو تیری حرص ہو لیکن ان میں سے اکثر لوگ بے ایمان ہی رہیں گے “۔ [12-يوسف:103]
ایک اور آیت میں ہے «وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ» [6-الأنعام:116] ” اگر تو اکثریت کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے راہ اللہ سے بہکا دیں گے “۔
” تم سب اللہ کی طرف راغب رہو، اسی کی جانب جھکے رہو، اسی کا ڈر خوف رکھو اور اسی کا لحاظ رکھو۔ نمازوں کی پابندی کرو جو سب سے بڑی عبادت اور اطاعت ہے۔ تم مشرک نہ بنو بلکہ موحد اور خالص بن جاؤ اس کے سوا کسی اور سے کوئی مراد وابستہ نہ رکھو “۔
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”یہ تین چیزیں ہیں اور یہی نجات کی جڑیں ہیں اول اخلاص جو فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے دوسرے نماز جو دراصل دین ہے تیسرے اطاعت جو عصمت اور بچاؤ ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ رضی اللہ عنہ نے سچ کہا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:183/10:]
تمہیں مشرکوں میں نہ ملنا چاہیئے تمہیں ان کا ساتھ نہ دینا چاہیئے اور نہ ان جیسے فعل کرنا چاہیئے جنہوں نے دین اللہ کو بدل دیا بعض باتوں کو مان لیا اور بعض سے انکار کر گئے «فَرَّقُوا» کی دوسری قرأت «فَارَقُوْا» ہے یعنی انہوں نے اپنے دین کو چھوڑ دیا۔ جیسے یہود، نصاری، مجوسی، بت پرست اور دوسرے باطل مذاہب والے۔
جیسے ارشاد ہے «إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُون» [6-الأنعام:159] ” جن لوگوں نے اپنے دین میں تفریق کی اور گروہ بندی کر لی تو ان میں شامل ہی نہیں ان کا انجام سپرد اللہ ہے “۔
” تم سے پہلے والی قومیں گروہ گروہ ہو گئیں تھی “۔ سب کی سب باطل پر جم گئیں اور ہر فرقہ یہی دعویٰ کر تا رہا کہ وہ سچا ہے دراصل حقانیت ان سب سے گم ہوگئی تھی اس امت میں بھی تفرقہ پڑا لیکن ان میں ایک حق پر ہے ہاں باقی سب گمراہی پر ہیں۔ یہ حق والی جماعت اہل سنت والجماعت ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو مضبوط تھامنے والی ہے۔ جس پر سابقہ زمانے کے صحابہ، تابعین اور ائمہ مسلمین تھے گزشتہ زمانے میں بھی اور اب بھی۔
جیسے مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ان سب میں نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ كَانَ عَلَى مِثْلِ مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي» یعنی وہ لوگ جو اس پر ہوں جس پر آج میں اور میرے اصحاب رضی اللہ عنہم ہیں ۔ [سنن ترمذي:2641]
(برادران غور فرمائیے کہ وہ چیز جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے وہ وحی اللہ یعنی قرآن و حدیث ہی تھی یا کسی امام کی تقلید؟)