قرآن مجيد

سورة الروم
وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ[18]
اور اسی کے لیے سب تعریف ہے آسمانوں اور زمین میں اور پچھلے پہر اور جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو۔[18]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 17، 18، 19،

خالق کل مقتدر کل ہے ٭٭

اس رب تعالیٰ کی کمال قدرت اور عظمت سلطنت پر دلالت اس کی تسبیح اور اس کی حمد سے ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی رہبری کرتا ہے اور اپنا پاک ہونا اور قابل حمد ہونا بھی بیان فرما رہا ہے۔ شام کے وقت جبکہ رات اپنے اندھیروں کو لے آتی ہے اور صبح کے وقت جبکہ دن اپنی روشنیوں کو لے آتا ہے۔ اتنا بیان فرما کر اس کے بعد کاجملہ بیان فرمانے سے پہلے ہی یہ بھی ظاہر کر دیا کہ زمین و آسمان میں قابل حمد و ثناء وہی ہے ان کی پیدائش خود اس کی بزرگی پر دلیل ہے۔

پھر صبح شام کے وقتوں کی تسبیح کا بیان جو پہلے گزرا تھا اس کے ساتھ عشاء اور ظہر کا وقت ملالیا۔ جو پور ے اندھیرے اور کامل اجالے کا وقت ہوتا ہے۔ بیشک تمام تر پاکیزگی اسی کو سزاوار ہے جو رات کے اندھیروں کو اور دن کے اجالوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ «فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا» [6-الأنعام:96] ‏‏‏‏ ” صبح کا ظاہر کرنے والا رات کو سکون والی بنانے والا وہی ہے “۔

اس جیسی آیتیں اور بھی بہت سی ہیں۔ آیت «النَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا» [91-الشمس:-4-3] ‏‏‏‏ اور «ووَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ» [92-الليل:-2-1] ‏‏‏‏ ٰ اور «وَالضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى» [93-الضحى:2-1] ‏‏‏‏ وغیرہ۔

مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کا نام خلیل (‏‏‏‏وفادار)‏‏‏‏‏‏‏‏ کیوں رکھا؟ اس لیے کہ وہ صبح شام ان کلمات کو پڑھاکرتے تھے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ» [30-الروم:17] ‏‏‏‏ سے «وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ» ‏‏‏‏ [30-الروم:18] ‏‏‏‏ تک کی دونوں آیتیں تلاوت فرمائیں ۔ [مسند احمد:439/3:ضعیف] ‏‏‏‏

طبرانی کی حدیث میں ان دونوں آیتوں کی نسبت ہے کہ جس نے صبح و شام یہ پڑھ لیں اس نے دن رات میں جو چیز چھوٹ گئی اسے پا لیا ۔ [سنن ابوداود:5076،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏۔

پھر بیان فرمایا کہ ” موت وزیست کا خالق مردوں سے زندوں کو اور زندوں سے مردوں کو نکالنے والا وہی ہے “۔ ہر شئے پر اور اس کی ضد پر وہ قادر ہے دانے سے درخت، درخت سے دانے، مرغی سے انڈہ، انڈے سے مرغی، نطفے سے انسان، انسان سے نطفہ، مومن سے کافر، کافر سے مومن غرض ہرچیز اور اس کے مقابلہ کی چیز پر اسے قدرت حاصل ہے۔

خشک زمین کو وہی تر کردیتا ہے بنجر زمین سے وہی زراعت پیدا کرتا ہے جیسے سورۃ یاسین میں فرمایا کہ «وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْ‌ضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَ‌جْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْ‌نَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ» ” خشک زمین کا تروتازہ ہو کرطرح طرح کے اناج وپھل پیدا کرنا بھی میری قدرت کا ایک کامل نشان ہے “ [36-يس:33-34] ‏‏‏‏۔

ایک اور آیت میں ہے «وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّهُ يُحْيِي الْمَوْتَى وَأَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ» [22-الحج:5-7] ‏‏‏‏ ” تمہارے دیکھتے ہوئے اس زمین کو جس میں سے دھواں اٹھتا ہو دو بوند سے تر کر کے میں لہلہا دیتا ہوں اور ہر قسم کی پیداوار سے اسے سرسبز کر دیتا ہوں “۔

اور بھی بہت سی آیتوں میں اس مضمون کو کہیں مفصل کہیں مجمل بیان فرمایا۔ یہاں فرمایا ” اسی طرح تم سب بھی مرنے کے بعد قبروں میں سے زندہ کر کے کھڑے کر دئیے جاؤ گے “۔