تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 56، 57، 58، 59، 60،
مہاجرین کے لیے انعامات الٰہی ٭٭
اللہ تبارک و تعالیٰ اس آیت میں ایمان والوں کو ہجرت کا حکم دیتا ہے کہ جہاں وہ دین کو قائم نہ رکھ سکتے ہوں وہاں سے اس جگہ چلے جائیں جہاں ان کے دین میں انہیں آزادی رہے۔ اللہ کی زمین بہت کشادہ ہے جہاں وہ فرمان اللہ کے ماتحت اللہ کی عبادت و توحید بجا لا سکیں، وہاں چلے جائیں۔
مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: تمام شہر اللہ کے شہر ہیں اور کل بندے اللہ کے غلام ہیں۔ جہاں تو بھلائی پا سکتا ہو، وہیں قیام کر۔ [مسند احمد:166/1:ضعیف]
چنانچہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم پر جب مکہ مکرمہ کی رہائش مشکل ہو گئی تو وہ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تاکہ امن و امان کے ساتھ اللہ کے دین پر قیام کر سکیں۔ وہاں کے سمجھدار، دیندار بادشاہ اصحمہ نجاشی رحمہ اللہ نے ان کی پوری تائید و نصرت کی اور وہاں بہت عزت اور خوشی سے رہے سہے۔ پھر اس کے بعد بااجازت الٰہی دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
بعد ازاں فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک مرنے والا اور میرے سامنے حاضر ہونے والا ہے۔ تم خواہ کہیں ہو، موت کے پنجے سے نجات نہیں پا سکتے۔ پس تمہیں زندگی بھر اللہ کی اطاعت میں اور اس کے راضی کرنے میں رہنا چاہیئے تاکہ مرنے کے بعد اللہ کے ہاں جا کر عذاب میں نہ پھنسو۔
ایمان دار، نیک اعمال لوگوں کو اللہ تعالیٰ جنت عدن کی بلند و بالا منزلوں میں پہنچائے گا۔ جن کے نیچے قسم قسم کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ کہیں صاف شفاف پانی کی، کہیں شراب طہور کی، کہیں شہد کی، کہیں دودھ کی۔ یہ چشمے خودبخود جہاں جتنے چاہیں، بہنے لگیں گے۔ یہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ نہ وہاں سے نکالے جائیں گے، نہ ہٹائے جائیں گے، نہ وہ نعمتیں ختم ہونگی، نہ ان میں گھاٹا آئے گا۔
مومنوں کے نیک اعمال پر جنتی بالاخانے انہیں مبارک ہوں۔ جنہوں نے اپنے سچے دین پر صبر کیا اور اللہ کی طرف ہجرت کی، اس کے دشمنوں کو ترک کیا اور اپنے اقرباء اور اپنے گھر والوں کو راہ اللہ میں چھوڑا اور اس کی نعمتوں اور اس کے انعامات کی امید پر دنیا کے عیش و عشرت پر لات مار دی۔
ابن ابی حاتم میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بنائے ہیں جو کھانا کھلائیں، خوش کلام، نرم گو ہوں، روزے، نماز کے پابند ہوں اور راتوں کو جبکہ لوگ سوئے ہوئے ہوں، یہ نمازیں پڑھتے ہوں اور اپنے کل احوال میں دینی ہو یا دنیوی۔ اپنے رب پر کامل بھروسہ رکھتے ہوں۔ [مسند احمد:343/5:حسن]
پھر فرمایا کہ رزق کسی جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا تقسیم کیا ہوا رزق عام ہے اور ہر جگہ جو جہاں ہو، اسے وہیں پہنچ جاتا ہے۔ مہاجرین کے رزق میں ہجرت کے بعد اللہ نے وہ برکتیں دیں کہ یہ دنیا کے کناروں کے مالک ہو گئے اور بادشاہ بن گئے۔
فرمایا کہ بہت سے جانور ہیں جو اپنے رزق کے جمع کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اللہ کے ذمہ ان کی روزیاں ہیں۔ پروردگار انہیں ان کے رزق پہنچا دیتا ہے۔ تمہارا رازق بھی وہی ہے، وہ کسی مخلوق کو کسی حالت میں کسی وقت نہیں بھولتا۔ چیونٹیوں کو ان کے سوراخوں میں، پرندوں کو آسمان و زمین کے خلا میں، مچھلیوں کو پانی میں وہی رزق پہنچاتا ہے۔
جیسے فرمایا: «وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ» [11-هود:6] یعنی ” کوئی جانور روئے زمین پر ایسا نہیں کہ اس کی روزی اللہ کے ذمے نہ ہو۔ وہی ان کے ٹھہرنے اور رہنے سہنے کی جگہ کو بخوبی جانتا ہے۔ یہ سب اس کی روشن کتاب میں موجود ہے۔ “
ابن ابی حاتم میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا، آپ مدینے کے باغات میں سے ایک باغ میں گئے۔ اور گری پڑی ردی کھجوریں کھول کھول کر صاف کر کے کھانے لگے۔ مجھ سے بھی کھانے کو فرمایا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ سے تو یہ ردی کھجوریں نہیں کھائی جائیں گی۔ آپ نے فرمایا: لیکن مجھے تو یہ بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں، اس لیے کہ چوتھے دن کی صبح ہے کہ میں نے کھانا نہیں کھایا اور نہ کھانے کی وجہ یہ ہے کہ ملا ہی نہیں۔ سنو! اگر میں چاہتا تو اللہ سے دعا کرتا اور اللہ مجھے قیصر و کسریٰ کا ملک دے دیتا۔ اے ابن عمر رضی اللہ عنہما! تیرا کیا حال ہو گا جبکہ تو ایسے لوگوں میں ہو گا جو سال سال بھر کے غلے وغیرہ جمع کر لیا کریں گے اور ان کا یقین اور توکل بالکل بودہ ہو جائے گا۔ ہم ابھی تو وہیں اسی حالت میں تھے کہ جو آیت «وَكَأَيِّن مِّن دَابَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» نازل ہوئی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل نے مجھے دنیا کے خزانے جمع کرنے کا اور خواہشوں کے پیچھے لگ جانے کا حکم نہیں کیا۔ جو شخص دنیا کے خزانے جمع کرے اور اس سے باقی والی زندگی چاہے وہ سمجھ لے کہ باقی رہنے والی حیات تو اللہ کے ہاتھ ہے۔ دیکھو میں تو نہ دینار درہم جمع کروں، نہ کل کے لیے آج روزی کا ذخیرہ جمع کر رکھوں۔ [بغوی فی التفسیر:253/6:ضعیف] یہ حدیث غریب ہے اور اس کا راوی ابوالعطوف جزی ضعیف ہے۔
یہ مشہور ہے کہ کوے کے بچے جب نکلتے ہیں تو ان کے پر و بال سفید ہوتے ہیں، یہ دیکھ کر کوا ان سے نفرت کر کے بھاگ جاتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد ان کے پروں کی رنگت سیاہ پڑ جاتی ہے تب ان کے ماں باپ آتے ہیں اور انہیں دانہ وغیرہ کھلاتے ہیں۔ ابتدائی ایام میں جبکہ ماں باپ ان چھوٹے بچوں سے متنفر ہو کر بھاگ جاتے ہیں اور ان کے پاس بھی نہیں آتے، اس وقت اللہ تعالیٰ چھوٹے چھوٹے مچھر ان کے پاس بھیج دیتا ہے، وہی ان کی غذا بن جاتے ہیں۔
عرب کے شعراء نے اسے نظم بھی کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ سفر کرو تاکہ صحت اور روزی پاؤ۔ [بیھقی فی السنن الکبری:102/7:ضعیف]
اور حدیث میں ہے: سفر کرو تاکہ صحت و غنیمت ملے۔
اور حدیث میں ہے: سفر کرو، نفع اٹھاؤ گے۔ روزے رکھو، تندرست رہو گے۔ جہاد کرو، غنیمت ملے گی۔ [مسند احمد:380/2:ضعیف]
ایک اور روایت میں ہے: جد والوں اور آسانی والوں کے ساتھ سفر کرو۔ [الدیلمی فی مسند الفردوس:3387:ضعیف]
پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتیں سننے والا اور ان کی حرکات و سکنات کو جاننے والا ہے۔