تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں پکڑ لیا، پھر ان میں سے کوئی وہ تھا جس پر ہم نے پتھرائو والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے چیخ نے پکڑ لیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے غرق کر دیا اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے اور لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔[40]
عادی ہود علیہ السلام کی قوم تھے۔ احقاف میں رہتے تھے جو یمن کے شہروں میں حضر موت کے قریب ہے۔ ثمودی صالح علیہ السلام کی قوم کے لوگ تھے۔ یہ حجر میں بستے تھے جو وادی القریٰ کے قریب ہے۔ عرب کے راستے میں ان کی بستی آتی تھی جسے یہ بخوبی جانتے تھے۔ قارون ایک دولت مند شخص تھا جس کے بھرپور خزانوں کی کنجیاں ایک جماعت کی جماعت اٹھاتی تھی۔ فرعون مصر کا بادشاہ تھا اور ہامان اس کا وزیر اعظم تھا۔ اسی کے زمانے میں موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نبی ہو کر اس کی طرف بھیجے گئے۔ یہ دونوں قبطی کافر تھے، جب ان کی سرکشی حد سے گزر گئی اللہ کی توحید کے منکر ہو گئے، رسولوں کو ایذائیں دیں اور ان کی نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کیا۔ عادیوں پر ہوائیں بھیجیں۔ انہیں اپنی قوت وطاقت کا بڑا گھمنڈ تھا کسی کو اپنے مقابلے کا نہ جانتے تھے۔ ان پر ہوا بھیجی جو بڑی تیز وتند تھی جو ان پر زمین کے پتھر اڑا اڑا کر برسانے لگی۔ بالآخر زور پکڑتے پکڑتے یہاں تک بڑھ گئی کہ انہیں اچک لے جاتی اور آسمان کے قریب لے جا کر پھر گرا دیتی۔ سر کے بل گرتے اور سر الگ ہو جاتا دھڑ الگ ہو جاتا اور ایسے ہو جاتے جیسے کھجور کے درخت، جس کے تنے الگ ہوں اور شاخیں جدا ہوں، ثمودیوں پر حجت الٰہی پوری ہوئی دلائل دے دئیے گئے ان کی طلب کے موافق پتھر میں سے ان کے دیکھتے ہوئے اونٹنی نکلی لیکن تاہم انہیں ایمان نصیب نہ ہوا بلکہ طغیانی میں بڑھتے رہے۔ اللہ کے نبی صالح علیہ السلام کو دھمکانے اور ڈرانے لگے اور ایمانداروں سے بھی کہنے لگے کہ ہمارے شہر چھوڑ دو ورنہ ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے۔ انہیں ایک چیخ سے پارہ پارہ کر دیا۔ دل ہل گئے کلیجے اڑ گئے اور سب کی روحیں نکل گئیں۔
قارون نے سرکشی اور تکبر کیا۔ طغیانی اور بڑائی کی، رب الاعلیٰ کی نافرمانی کی، زمین میں فساد مچا دیا، اکڑ اکڑ کر چلنے لگا، اپنے ڈنڈ بل دیکھنے لگا، اترانے لگا اور پھولنے لگا، پس اللہ نے اسے مع اس کے محلات کے زمین دوز کر دیا جو آج تک دھنستا چلا جا رہا ہے۔ فرعون، ہامان اور ان کے لشکروں کو صبح ہی صبح ایک ساتھ ایک ہی ساعت میں دریا برد کر دیا۔ ان میں سے ایک بھی نہ بچا جو ان کا نام تو کبھی لیتا۔ اللہ نے یہ جو کچھ کیا کچھ ان پر ظلم نہ تھا بلکہ ان کے ظلم کا بدلہ تھا۔ ان کے کرتوت کا پھل تھا ان کی کرنی کی بھرنی تھی۔ یہ بیان یہاں بطور لف و نشر کے ہے۔ اولاً جھٹلانے والی امتوں کا ذکر ہوا۔ پھر ان میں سے ہر ایک کو عذابوں سے ہلاک کرنے کا۔ کسی نے کہا کہ سب سے پہلے جن پر پتھروں کا مینہ برسانے کا ذکر ہے ان سے مراد لوطی ہیں اور غرق کی جانے والی قوم قوم نوح ہے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ مروی تو ہے لیکن سند میں انقطاع ہے۔ ان دونوں قوموں کی حالت کا ذکر اسی صورت میں بہ تفصیل بیان ہو چکا ہے۔ پھر بہت سے فاصلے کے بعد یہ بیان ہوا ہے۔
قتادۃ رحمہ اللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ پتھروں کا مینہ جن پر برسایا گیا ان سے مراد لوطی ہیں اور جنہیں چیخ سے ہلاک کیا گیا ان سے مراد قوم شعیب ہے لیکن یہ قول بھی ان آیتوں سے دور دراز ہے، «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔