قرآن مجيد

سورة العنكبوت
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ[28]
اور لوط کو (بھیجا) جب اس نے اپنی قوم سے کہا بے شک تم یقینا اس بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے جہانوں میں سے کسی نے نہیں کی۔[28]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 28، 29، 30،

سب سے خراب عادت ٭٭



لوطیوں کی مشہور بدکرداری سے لوط انہیں روکتے ہیں کہ تم جیسی خباثت تم سے پہلے تو کوئی جانتاہی نہ تھا۔ کفر، تکذیب رسول، اللہ کے حکم کی مخالفت تو خیر اور بھی کرتے رہے مگر مردوں سے حاجت روائی تو کسی نے بھی نہیں کی۔ دوسری بد خصلت ان میں یہ بھی تھی کہ راستے روکتے تھے، ڈاکے ڈالتے تھے، قتل وفساد کرتے تھے مال لوٹ لیتے تھے، مجلسوں میں علی الاعلان بری باتیں اور لغو حرکتیں کرتے تھے۔ کوئی کسی کو نہیں روکتا تھا یہاں تک کہ بعض کا قول ہے کہ وہ لواطت بھی علی الاعلان کرتے تھے۔

گویا سوسائٹی کا ایک مشغلہ یہ بھی تھا ہوائیں نکال کر ہنستے تھے، مینڈھے لڑواتے، مرغ لڑواتے اور بدترین برائیاں کرتے تھے اور علی الاعلان مزے لے لے کر گناہ کرتے تھے۔

حدیث میں ہے کہ راہ چلتوں پر آوازہ کشی کرتے تھے اور کنکر پتھر پھینکتے رہتے تھے۔ [مسند احمد:241/6:ضعیف] ‏‏‏‏

سیٹیاں بجاتے تھے کبوتربازی کرتے تھے، ننگے ہو جاتے تھے، کفر عنادسرکشی ضد اور ہٹ دھرمی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ نبی کے سمجھانے پر کہنے لگے جاجا پس نصیحت چھوڑ جن عذابوں سے ڈرارہا ہے انہیں تو لے آ۔ ہم بھی تیری سچائی دیکھیں۔ عاجز آ کر لوط علیہ السلام نے بھی اللہ کے آگے ہاتھ پھیلادئیے کہ اے اللہ! ان مفسدوں پر مجھے غلبہ دے میری مدد کر۔