آپ کو خبر دی جاتی ہے کہ نوح علیہ السلام اتنی لمبی مدت تک اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلاتے رہے۔ دن رات،پوشیدہ اور ظاہر ہر طرح آپ نے انہیں اللہ کے دین کی طرف دعوت دی۔ لیکن وہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں ہی بڑھتے گئے۔
بہت ہی کم لوگ آپ پر ایمان لائے۔ آخرکار اللہ کا غضب ان پر بصورت طوفان آیا اور انہیں تہس نہس کر دیا تو اے پیغمبر آخرالزمان آپ اپنی قوم کی اس تکذیب کو نیا خیال نہ کریں۔ آپ اپنے دل کو رنجیدہ نہ کریں۔ ہدایت و ضلالت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جن لوگوں کا جہنم میں جانا طے ہو چکا ہے انہیں تو کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا۔ تمام نشانیاں گو دیکھ لیں لیکن انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا۔
بالآخر جیسے نوح علیہ السلام کو نجات ملی اور قوم ڈوب گئی اسی طرح آخر میں غلبہ آپ کا ہے اور آپ کے مخالفین پست ہوں گے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ چالیس سال کی عمر میں نوح علیہ السلام کو نبوت ملی اور نبوت کے بعد ساڑھے نو سو سال تک آپ نے اپنی قوم کو تبلیغ کی۔
طوفان کی عالمگیر ہلاکت کے بعد بھی نوح علیہ السلام ساٹھ سال تک زندہ رہے یہاں تک کہ بنو آدم کی نسل پھیل گئی اور دنیا میں یہ بکثرت نظر آنے لگے۔
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نوح علیہ السلام کی عمر کل ساڑھے نو سو سال کی تھی تین سو سال تو آپ کے بے دعوت ان میں گزرے،تین سو سال تک اللہ کی طرف اپنی قوم کو بلایا اور ساڑے تین سو سال بعد طوفان کے بعد زندہ رہے لیکن یہ قول غریب ہے اور آیت کے ظاہر الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلاتے رہے۔
عون بن ابی شداد کہتے ہیں کہ جب آپ کی عمر سو سال کی تھی اس وقت اللہ کی وحی آپ کو آئی اس کے بعد ساڑھے نو سو سال تک آپ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے رہے اس کے بعد پھر ساڑھے تین سو سال کی عمر اور پائی۔ لیکن یہ بھی غریب قول ہے۔
زیادہ درست قول ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نظر آتا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
ابن عمر نے مجاہدرحمہ اللہ سے پوچھا کہ نوح علیہ السلام اپنی قوم میں کتنی مدت تک رہے؟ انہوں نے کہا ساڑھے نو سو سال۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے بعد سے لوگوں کے اخلاق اور ان کی عمریں اور عقلیں آج تک گھٹتی ہی چلی آئیں۔
جب قوم نوح پر اللہ کا غضب نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نبی کو اور ایمان والوں کو جو آپ کے حکم سے طوفان سے پہلے کشتی میں سوار ہو چکے تھے بچا لیا۔
سورۃ ہود میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے اس لیے یہاں دوبارہ وارد نہیں کرتے۔ ہم نے اس کشتی کو دنیا کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔ یا تو خود اس کشتی کو جیسے قتادۃ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اول اسلام تک وہ جودی پہاڑ پر تھی۔ یا یہ کہ کشتی کو دیکھ کر پھر پانی کے سفر کے لیے جو کشتیاں لوگوں نے بنائیں ان کو انہیں دیکھ کر اللہ کا وہ بچانا یاد آ جاتا ہے۔
جیسے فرمان ہے «وَآيَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ» [36-يس:41-42] یعنی ” ہماری قدرت کی نشانی ان کے لیے یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں بٹھا دیا۔ اور ہم نے ان کے لیے اور اسی جیسی سواریاں بنا دیں۔ “
سورۃ الحاقہ میں فرمایا: جب پانی کا طوفان آیا تو ہم نے تمہیں کشتی میں سوار کر لیا۔ اور ان کا ذکر تمہارے لیے یادگار بنا دیا تاکہ جن کانوں کو اللہ نے یاد کی طاقت دی ہے وہ یاد رکھ لیں۔ یہاں شخص سے جنس کی طرف چڑھاؤ کیا ہے۔
جیسے «وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ» [67-الملك:5] والی آیت میں ہے کہ آسمان دنیا کے ستاروں کے باعث زینت آسمان ہونا بیان فرما کر ان کی وضاحت میں شہاب کا شیطانوں کے لیے رجم ہونا بیان فرمایا ہے۔
اور آیت میں انسان کے مٹی سے پیدا ہونے کا ذکر کر کے فرمایا ہے پھر ہم نے اسے نطفے کی شکل میں قرار گاہ میں کر دیا۔
ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں «ھا» کی ضمیر کا مرجع عقوبت اور سزا کو کیا جائے، «وَاللهُ اَعْلَمُ»
(یہاں یہ خیال رہے کہ تفسیر ابن کثیر کے بعض نسخوں میں شروع تفسیر میں کچھ عبارت زیادہ ہے جو بعض نسخوں میں نہیں۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کا ساڑھے نو سو سال تک آزمایا جانا بیان کیا اور ان کی قوم کو ان کی اطاعت کے ساتھ آزمانا بتلایا کہ ان کی تکذیب کی وجہ سے اللہ نے انہیں غرق کر دیا۔ پھر اس کے بعد جلا دیا۔ پھر قوم ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کا ذکر کیا کہ انہوں نے بھی اطاعت ومتابعت نہ کی پھر لوط علیہ السلام کی آزمائش کا ذکر کیا اور ان کی قوم کا حشر بیان فرمایا۔ پھر شعیب علیہ السلام کی قوم کے واقعات سامنے رکھے پھر عادیوں، ثمودیوں، قارونیوں، فرعونیوں، ہامانیوں وغیرہ کا ذکر کیا کہ اللہ پر ایمان نہ لانے اور اس کی توحید کو نہ ماننے کی وجہ سے انہیں بھی طرح طرح کی سزائیں دی گئیں۔ پھر اپنے پیغمبر اعظم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین اور منافقین سے تکالیف سہنے کا ذکر کیا اور آپ کو حکم فرمایا کہ اہل کتاب سے بہترین طریق پر مناظرہ کریں۔)