پس اس کے رب نے اسے اچھی قبولیت کے ساتھ قبول کیا اور اچھی نشو و نما کے ساتھ اس کی پرورش کی اور اس کا کفیل زکریا کو بنا دیا۔ جب کبھی زکریا اس کے پاس عبادت خانے میں داخل ہوتا، اس کے پاس کوئی نہ کوئی کھانے کی چیز پاتا، کہا اے مریم! یہ تیرے لیے کہاں سے ہے؟ اس نے کہا یہ اللہ کے پاس سے ہے۔ بے شک اللہ جسے چاہتا ہے کسی حساب کے بغیر رزق دیتا ہے۔[37]
اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ حنہ کی نذر کو اللہ تعالیٰ نے بخوشی قبول فرما لیا اور اسے بہترین طور سے نشوونما بخشی، ظاہری خوبی بھی عطا فرمائی اور باطنی خوبی سے بھرپور کر دیا اور اپنے نیک بندوں میں ان کی پرورش کرائی تاکہ علم اور خیر اور دین سیکھ لیں، زکریا علیہ السلام کو ان کا کفیل بنا دیا۔
ابن اسحاق رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں یہ اس لیے کہ مریم علیہما السلام یتیم ہو گئی تھیں، لیکن دوسرے بزرگ فرماتے ہیں کہ قحط سالی کی وجہ سے ان کی کفالت کا بوجھ زکریا علیہ السلام نے اپنے ذمہ لے لیا تھا، ہو سکتا ہے کہ دونوں وجوہات اتفاقاً آپس میں مل گئی ہوں۔ «واللہ اعلم»
ابن اسحاق وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زکریا علیہ السلام ان کے خالو تھے، اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کے بہنوئی تھے، جیسے معراج والی صحیح حدیث میں ہے کہ آپ نے یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ملاقات کی جو دونوں خالہ زاد بھائی ہیں۔ [صحیح بخاری:3887] ۔
ابن اسحاق کے قول پر یہ حدیث ٹھیک ہے کیونکہ اصطلاح عرب میں ماں کی خالہ کے لڑکے کو بھی خالہ زاد بھائی کہہ دیتے ہیں پس ثابت ہوا کہ مریم اپنی خالہ کی پرورش میں تھیں۔
صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ رضی اللہ عنہ کی یتیم صاحبزادی عمرہ کو ان کی خالہ جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہا کی بیوی صاحبہ کے سپرد کیا تھا اور فرمایا تھا کہ خالہ قائم مقام ماں کے ہے۔ [صحیح بخاری:2699] ۔
اب اللہ تعالیٰ مریم رضی اللہ عنہما کی بزرگی اور ان کی کرامت بیان فرماتا ہے کہ زکریا علیہ السلام جب کبھی ان کے پاس ان کے حجرے میں جاتے تو بے موسمی میوے ان کے پاس پاتے مثلاً جاڑوں میں گرمیوں کے میوے اور گرمیوں میں جاڑے کے میوے۔
مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر، ابوالشعشاء، ابراہیم نخعی، ضحاک، قتادہ، ربیع بن انس، عطیہ عوفی، سدی رحمہ اللہ علیہم اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں [تفسیر ابن ابی حاتم:2/227]
مجاہد رحمہ اللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ یہاں رزق سے مراد علم اور وہ صحیفے ہیں جن میں علمی باتیں ہوتی تھیں لیکن اول قول ہی زیادہ صحیح ہے۔
اس آیت میں اولیاء اللہ کی کرامات کی دلیل ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سی حدیثیں بھی آتی ہیں۔ زکریا علیہ السلام ایک دن پوچھ بیٹھے کہ مریم تمہارے پاس یہ رزق کہاں سے آتا ہے؟ صدیقہ نے جواب دیا کہ اللہ کے پاس سے، وہ جسے چاہے بےحساب روزی دیتا ہے۔
مسند حافظ ابویعلیٰ میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کئی دن بغیر کچھ کھائے گزر گئے بھوک سے آپ کو تکلیف ہونے لگی اپنی سب بیویوں کے گھر ہو آئے لیکن کہیں بھی کچھ نہ پایا۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور دریافت فرمایا کہ بچی تمہارے پاس کچھ ہے؟ کہ میں کھا لوں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے، وہاں سے بھی یہی جواب ملا کہ اے اللہ کے رسول کچھ بھی نہیں، اللہ کے نبی «اللھم صلی وسلم علیہ» وہاں سے نکلے ہی تھے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی نے دو روٹیاں اور ٹکڑا گوشت فاطمہ کے پاس بھیجا آپ نے اسے لے کر برتن میں رکھ لیا اور فرمانے لگیں گو مجھے، میرے خاوند اور بچوں کو بھوک ہے لیکن ہم سب فاقے ہی سے گزار دیں گے اور اللہ کی قسم آج تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو دوں گی، پھر حسن یا حسین کو آپ کی خدمت میں بھیجا کہ آپ کو بلا لائیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم راستے ہی میں ملے اور ساتھ ہو لیے، آپ آئے تو کہنے لگیں میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اللہ نے کچھ بھجوا دیا ہے جسے میں نے آپ کے لیے چھپا کر رکھ دیا ہے، آپ نے فرمایا میری پیاری بچی لے آؤ، اب جو طشت کھولا تو دیکھتی ہے کہ روٹی سالن سے ابل رہا ہے دیکھ کر حیران ہو گئیں لیکن فوراً سمجھ گئیں کہ اللہ کی طرف سے اس میں برکت نازل ہو گئی ہے، اللہ کا شکر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پر درود پڑھا اور آپ کے پاس لا کر پیش کر دیا آپ نے بھی اسے دیکھ کر اللہ کی تعریف کی اور دریافت فرمایا کہ بیٹی یہ کہاں سے آیا؟ جواب دیا کہ ابا جان اللہ کے پاس سے وہ جسے چاہے بیحساب روزی دے، آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے کہ اے پیاری بچی تجھے بھی اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی تمام عورتوں کی سردار جیسا کر دیا۔
انہیں جب کبھی اللہ تعالیٰ کوئی چیز عطا فرماتا اور ان سے پوچھا جاتا تو یہی جواب دیا کرتی تھیں کہ اللہ کے پاس سے ہے اللہ جسے چاہے بےحساب رزق دیتا ہے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور آپ نے علی رضی اللہ عنہ نے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اور حسین رضی اللہ عنہ نے اور آپ کی سب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور اہل بیت نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا پھر بھی اتنا ہی باقی رہا جتنا پہلے تھا جو آس پاس کے پڑوسیوں کے ہاں بھیجا گیا یہ خیر کثیر اور برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی۔ [الدار االمسشور اللسیوطی:2/36:ضعیف جداً]