اور فرعون نے کہا اے سردارو! میں نے اپنے سوا تمھارے لیے کوئی معبود نہیں جانا، تو اے ہامان! میرے لیے مٹی پر آگ جلا، پھر میرے لیے ایک اونچی عمارت بنا، تاکہ میں موسیٰ کے معبود کی طرف جھانکوں اور بے شک میں یقینا اسے جھوٹوں میں سے گمان کرتا ہوں۔[38]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 38، 39، 40، 41، 42،
فرعونیوں کا انجام ٭٭
فرعون کی سرکشی اور اس کے الہامی دعوے کا ذکر ہو رہا ہے کہ «فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ» [43-الزخرف:54] اس نے اپنی قوم کو بےعقل بنا کر ان سے اپنا دعویٰ منوا لیا اس نے ان کمینوں کو جمع کر کے ہانک لگائی کہ «فَحَشَرَ فَنَادَىٰ فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَىٰ فَأَخَذَهُ اللَّـهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَىٰ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَن يَخْشَىٰ» [79-النازعات:23-26] ” تمہارا رب میں ہی ہوں سب سے اعلی اور بلند تر ہستی میری ہی ہے “، اسی بنا پر اللہ نے اسے دنیا اور آخرت کے عذابوں میں پکڑ لیا اور دوسروں کے لیے اسے نشان عبرت بنایا۔
ان کمینوں نے اسے اللہ مان کر اس کا دماغ یہاں تک بڑھا دیا کہ اس نے کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام سے ڈانٹ کر کہا «الَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلَـٰهًا غَيْرِي لَأَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ» [26-الشعراء:29] کہ ” سن اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو اپنا معبود بنایا تو میں تجھے قید میں ڈال دونگا “۔
انہی سفلے لوگوں میں بیٹھ کر اپنا دعویٰ انہیں منوا کر اپنے ہی جیسے اپنے خبیث وزیر ہامان سے کہتا ہے کہ تو ایک پزاوہ (بھٹہ) بنا اور اس میں اینٹیں پکوا اور میرے لیے ایک بلند و بالا مینار بنا کہ میں جا کر جھانکوں کہ واقعہ میں موسیٰ علیہ السلام کا کوئی اللہ ہے بھی یا نہیں۔ گو مجھے اس کے دروغ گو ہونے کا علم تو ہے۔ مگر میں اس کا جھوٹ تم سب پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔
اسی کا بیان آیت «وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَّعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰ إِلَـٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا وَكَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيلِ وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبَابٍ» [40-غافر:36،37] میں بھی ہے۔
چنانچہ ایک بلند مینار بنایا گیا کہ اس سے اونچا دنیا میں نہیں بنایا گیا۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کو نہ صرف دعویٰ رسالت میں ہی جھوٹ جانتا تھا بلکہ یہ تو واحد باری تعالیٰ کا قائل ہی نہ تھا۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے «قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِينَ» [26-الشعراء:23] کہ ” موسیٰ علیہ السلام سے اس نے کہا «وَمَا رَبُّ الْعَالَمِينَ» رب العالمین ہے کیا؟ “ اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ «الَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلَـٰهًا غَيْرِي لَأَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ» [26-الشعراء:29] ” اگر تو نے میرے سوا کسی کو اللہ جانا تو میں تجھے قید کردونگا “۔
اس آیت میں بھی ہے کہ اس نے اپنے درباریوں سے کہا میرے علم میں بجز میرے تمہارا اللہ کوئی اور نہیں۔ جب اس کی اور اس کی قوم کی طغیانی اور سرکشی حد سے گزر گئی۔ اللہ کے ملک میں ان کے فساد کی کوئی انتہا نہ رہی ان کے عقیدے کھوٹے پیسے جیسے ہو گئے۔ قیامت کے حساب کتاب کے بالکل منکر بن بیٹھے تو بالآخر اللہ کا عذاب ان پر برس پڑا اور رب نے انہیں تاک لیا اور بیج تک مٹا دیا۔ سب کو اپنے عذاب میں پکڑ لیا اور ایک ہی دن ایک ہی وقت ایک ساتھ دریا برد کر دیا۔
” لوگو سوچ لو کہ ظالموں کا کیسا عبرتناک انجام ہوتا ہے؟ ہم نے انہیں دوزخیوں کا امام بنا دیا ہے کہ یہ لوگوں کو ان کاموں کی طرف بلاتے ہیں جن سے وہ اللہ کے عذابوں میں جلیں “۔ جو بھی ان کی روش پر چلا اسے وہ جہنم میں لیے گئے جس نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ کو نہ مانا وہ ان کی راہ پر ہے۔ قیامت کے دن بھی ان کی کچھ نہ چلیں گی کہیں سے انہیں کوئی امداد نہ پہنچے گی دونوں جہاں میں یہ نقصان اور گھاٹے میں رہیں گے۔
جیسے فرمان ہے «اَهْلَكْنٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ» [47-محمد:13] ” ہم نے انہیں تہہ و بالا کر دیا اور کوئی ان کامددگار نہ ہوا “۔
دنیا میں بھی یہ ملعون ہوئے اللہ کی ان فرشتوں کی ان نبیوں کی اور تمام نیک بندوں کی ان پر لعنت ہے جو بھی بھلا آدمی ان کا نام سنے گا ان پر پھٹکار بھیجے گا دنیا میں بھی ملعون ہوئے اور آخرت میں بھی قباحت والے ہوں گے جیسے فرمان ہے آیت «وَاُتْبِعُوْا فِيْ هٰذِهٖ لَعْنَةً وَّيَوْمَ الْقِيٰمَةِ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُوْدُ» [11-ھود:99] ” یہاں بھی پھٹکار وہاں بھی لعنت “۔