قرآن مجيد

سورة القصص
وَقَالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ فَبَصُرَتْ بِهِ عَنْ جُنُبٍ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ[11]
اور اس نے اس کی بہن سے کہا اس کے پیچھے پیچھے جا۔ پس وہ اسے ایک طرف سے دیکھتی رہی اور وہ شعور نہیں رکھتے تھے۔[11]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 10، 11، 12، 13،

جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے؟ ٭٭

موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے جب ان کو صندوقچہ میں ڈال کر دریا میں بہادیا تو بہت پریشان ہوئیں اور سوائے اللہ کے سچے رسول اور اپنے لخت جگر موسیٰ علیہ السلام کے آپ کو کسی اور چیز کا خیال ہی نہ رہا۔ صبر وسکون جاتا رہا دل میں بجز موسیٰ علیہ السلام کی یاد کے اور کوئی خیال ہی نہیں آتا تھا۔

اگر اللہ کی طرف سے ان کی دلجمعی نہ کر دی جاتی تو وہ تو بے صبری میں راز فاش کر دیتیں لوگوں سے کہہ دیتیں کہ اس طرح میرا بچہ ضائع ہو گیا۔ لیکن اللہ نے اس کا دل ٹھہرا دیا ڈھارس دی اور تسکین دے دی کہ تیرا بچہ تجھے ضرور ملے گا۔

والدہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی بڑی بچی سے جو ذرا سمجھ دار تھیں فرمایا کہ بیٹی تم اس صندوق پر نظر جماکر کنارے کنارے چلی جاؤ دیکھو کیا انجام ہوتا ہے؟ مجھے بھی خبر کرنا تو یہ دور سے اسے دیکھتی ہوئی چلیں لیکن اس انجان پن سے کہ کوئی اور نہ سمجھ سکے کہ یہ اس کا خیال رکھتی ہوئی اس کے ساتھ جا رہی ہے۔ فرعون کے محل تک پہنچتے ہوئے اور وہاں اس کی لونڈیوں کو اٹھاتے ہوئے تو آپ کی ہمشیرہ نے دیکھا پھر وہیں باہر کھڑی رہ گئیں کہ شاید کچھ معلوم ہو سکے کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ وہاں یہ ہوا کہ جب آسیہ نے فرعون کو اس کے خونی ارادے سے باز رکھا اور بچے کو اپنی پرورش میں لے لیا تو شاہی محل میں جتنی دایاں تھیں سب کو بچہ دیا گیا۔

ہر ایک نے بشری محبت وپیار سے انہیں دودھ پلانا چاہا لیکن بحکم الٰہی موسیٰ علیہ السلام نے کسی کے دودھ کا ایک گھونٹ بھی نہ پیا۔ آخر اپنی لونڈیوں کے ہاتھوں اسے باہر بھیجا کہ کسی دایہ کو تلاش کرو جس کا دودھ یہ پئے اس کو لے آؤ۔ چونکہ رب العلمین کو یہ منظور نہ تھا کہ اس کا اپنی والدہ کے سوا کسی اور کا دودھ پئے اور اس میں سب سے بڑی مصلحت یہ تھی کہ اس بہانے موسیٰ علیہ السلام اپنی ماں تک پہنچ جائیں۔

لونڈیاں آپ علیہ السلام کو لے کر جب باہر نکلیں تو آپ علیہ السلام کی بہن نے آپ علیہ السلام کو پہچان لیا، لیکن ان پر ظاہر نہ کیا اور نہ خود انہیں کوئی پتہ چل سکا آپ کی بہن تو پہلے بہت پریشان تھی لیکن اس کے بعد اللہ نے انہیں صبر وسکون دے دیا اور وہ خاموش اور مطمئن تھیں۔ بہن نے انکو کہا کہ تم اس قدر پریشان کیوں ہو؟ انہوں نے کہا یہ بچہ کسی دائیہ کا دودھ نہیں پیتا اور ہم اس کے لیے دایہ کی تلاش میں ہیں۔

یہ سن کر ہمشیرہ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اگر تم کہو تو تمہیں ایک دائی کا پتہ دوں؟ ممکن ہے بچہ ان کا دودھ پی لیے اور اس کی پرورش کریں اور اس کی خیر خواہی کریں۔‏‏‏‏ یہ سن کر انہیں کچھ شک گزرا کہ یہ لڑکی اس لڑکے کی اصلیت ہے اور اس کے ماں باپ سے واقف ہے اسے گرفتار کر لیا اور پوچھا تمہیں کیا معلوم کہ وہ عورت اس کی کفالت اور خیر خواہی کرے گی؟ اس نے فوراً جواب دیا سبحان اللہ۔ کون نہ چاہے گا کہ شاہی دربار میں اس کی عزت ہو۔ انعام واکرام کی خاطر کون اس سے ہمدردی نہ کرے گا۔

ان کی سمجھ میں بھی آ گیا کہ ہمارا پہلا گمان غلط تھا یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہے اسے چھوڑ دیا اور کہا اچھاچل اس کا مکان دکھا یہ انہیں لے کر اپنے گھر لے آئیں اور اپنی والدہ کی طرف اشارہ کر کے کہا انہیں دیجئیے۔ سرکاری آدمیوں نے انہیں دیا تو بچہ دودھ پینے لگا۔ فوراً یہ خبر آسیہ رضی اللہ عنہا کو دی گئی وہ یہ سن کر بہت خوش ہوئیں اور انہیں اپنے محل میں بلوایا اور بہت کچھ انعام واکرام کیا لیکن یہ علم نہ تھا کہ فی الواقع یہی اس بچے کی والدہ ہیں۔ فقط اس وجہ سے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ان کا دودھ پیا تھا وہ ان سے بہت خوش ہوئیں۔

کچھ دنوں تک تو یونہی کام چلتارہا۔ آخرکار ایک روز آسیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میری خوشی ہے کہ تم محل میں آ جاؤ یہیں رہو سہو اور اسے دودھ پلاتی رہو۔ ام موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ تو مجھ سے نہیں ہوسکتا میں بال بچوں والی ہوں میرے میاں بھی ہیں میں انہیں دودھ پلادیا کرونگی پھر آپ کے ہاں بھیج دیا کرونگی۔ یہ طے ہوا اور اس پر فرعون کی بیوی بھی رضامند ہو گئیں ام موسیٰ علیہ السلام کا خوف امن سے، فقیری امیری سے، بھوک آسودگی سے، دولت وعزت میں بدل گئی۔ روزانہ انعام واکرام پاتیں۔ کھانا، کپڑا، شاہی طریق پر ملتا اور اپنے پیارے بچے کو اپنی گود میں پالتیں۔ ایک ہی رات یا ایک ہی دن یا ایک دن ایک رات کے بعد ہی اللہ نے اس کی مصیبت کو راحت سے بدل دیا۔

حدیث شریف میں ہے جو شخص اپنا کام دھندا کرے اور اس میں اللہ کا خوف اور میری سنتوں کا لحاظ کرے اس کی مثال ام موسیٰ علیہ السلام کی مثال ہے کہ اپنے ہی بچے کو دودھ پلائے اور اجرت بھی لے ۔

اللہ کی ذات پاک ہے اسی کے ہاتھ میں تمام کام ہے اسی کا چاہا ہوا ہوتا ہے اور جس کام کو وہ نہ چاہے ہرگز نہیں ہوتا۔ یقیناً وہ ہر اس شخص کی مدد کرتا ہے جو اس پر توکل کرے۔ اس کی فرمانبردای کرنے والے کا دستگیر وہی ہے۔ وہ اپنے نیک بندوں کے آڑے وقت کام آتا ہے اور ان کی تکلیفوں کو دور کرتا ہے اور ان کی تنگی کو فراخی سے بدلتا ہے۔ اور ہر رنج کے بعد راحت عطا فرماتا ہے۔ «فسبحانه ما اعظم شانه» ۔

پھر فرماتا ہے کہ ” ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف واپس لوٹادیا تا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور اسے اپنے بچے کا صدمہ نہ رہے، اور وہ اللہ کے وعدوں کو بھی سچا سمجھے اور یقین مان لے کہ وہ ضرور نبی اور رسول بھی ہونے والا ہے “۔

اب آپ علیہ السلام کی والدہ اطمینان سے آپ علیہ السلام کی پرورش میں مشغول ہو گئیں اور اسی طرح پرورش کی جس طرح ایک بلند درجہ نبی علیہ السلام کی ہونی چاہیئے۔ ہاں رب کی حکمتیں بےعلموں کی نگاہ سے اوجھل رہتی ہیں۔ وہ اللہ کے احکام کی غایت کو اور فرمانبردای کے نیک انجام کو نہیں سوچتے۔ ظاہری نفع نقصان کے پابند رہتے ہیں۔ اور دنیا پر ریجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ انہیں یہ نہیں سوجھتا کہ ممکن ہے جسے وہ برا سمجھ رہے ہیں اچھاہو اور بہت ممکن ہے کہ جسے وہ اچھاسمجھ رہے ہیں وہ برا ہو یعنی ایک کام برا جانتے ہوں مگر کیا خبر کہ اس میں قدرت نے کیا فوائد پوشیدہ رکھیں ہیں۔