ہدہد سلیمان علیہ السلام فوج کی میں مہندس کا کام کرتا تھا وہ بتلاتا تھا کہ پانی کہاں ہے؟ زمین کے اندر کا پانی اس کو اسطرح نظر آتا تھا جیسے کہ زمین کے اوپر کی چیز لوگوں کو نظر آتی ہے۔ جب سلیمان علیہ السلام جنگل میں ہوتے اس سے دریافت فرماتے کہ پانی کہاں ہے؟ یہ بتا دیتا کہ فلاں جگہ ہے۔ اتنا نیچا ہے اتنا اونچا ہے وغیرہ۔
سلیمان علیہ السلام اسی وقت جنات کو حکم دیتے اور کنواں کھود لیا جاتا۔ ایک دن اسی طرح جنگل میں تھے پرندوں کی تفتیش کی تاکہ پانی کی تلاش کا حکم دیں۔ اتفاق سے وہ موجود نہ تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا آج ہدہد نظر نہیں آتا کیا پرندوں میں کہیں وہ چھپ گیا جو مجھے نظر نہ آیا۔ یا واقعی وہ حاضر نہیں؟
ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ تفسیر سن کر نافع بن ازرق خارجی نے اعتراض کیا تھا یہ بکواسی ہر وقت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی باتوں پر بیجا اعتراض کیا کرتا تھا کہنے لگا آج تو تم ہارگئے۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوں؟ اس نے کہا آپ جو یہ فرماتے ہو کہ ہدہد زمین کے تلے کا پانی دیکھ لیتا تھا یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے ایک بچہ جال بچھاکر اسے مٹی سے ڈھک کر دانہ ڈال کر ہدہد کا شکار کر لیتا ہے اگر وہ زمین کے اندر کا پانی دیکھتا ہے تو زمین کے اوپر کا جال اسے کیوں نظر نہیں آتا؟ آپ نے فرمایا اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تو یہ سمجھ جائے گا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما لاجواب ہو گیا تو مجھے جواب کی ضرورت نہ تھی سن جس وقت قضاء آ جاتی ہے آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں اور عقل جاتی رہتی ہے۔ نافع لاجواب ہو گیا اور کہا واللہ اب میں آپ پر اعتراض نہ کرونگا۔
عبداللہ برزی رحمہ اللہ ایک ولی کامل شخص تھے پیر جمعرات کا روزہ پابندی سے رکھا کرتے تھے۔ اسی (80) سال کی عمر تھی ایک آنکھ سے کانے تھے۔ سلیمان بن زید نے ان سے آنکھ کے جانے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے اس کے بتانے سے انکار کر دیا۔ یہ بھی پیچھے پڑ گئے مہینوں گذر گئے نہ وہ بتاتے نہ یہ سوال چھوڑتے آخر تنگ آ کر فرمایا لو سن لو میرے پاس دو خراسانی برزہ میں (جو دمشق کے پاس ایک شہر ہے) آئے اور مجھ سے کہا کہ میں انہیں برزہ کی وادی میں لے جاؤں میں انہیں وہاں لے گیا۔
انہوں نے انگیٹھیاں نکالیں بخور نکالے اور جلانے شروع کئے یہاں تک کہ تمام وادی خوشبو سے مہکنے لگی۔ اور ہر طرف سے سانپوں کی آمد شروع ہو گئی۔ لیکن بےپرواہی سے بیٹھے رہے کسی سانپ کی طرف التفات نہ کرتے تھے۔ تھوڑی دیر میں ایک سانپ آیا جو ہاتھ بھر کا تھا اور اس کی آنکھیں سونے کی طرح چمک رہی تھیں۔ یہ بہت ہی خوش ہوئے اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے ہماری سال بھر محنت ٹھکانے لگی۔
انہوں نے اس سانپ کو لے کر اس کی آنکھوں میں سلائی پھیر کر اپنی آنکھوں میں وہ سلائی پھیرلی میں نے ان سے کہا کہ میری آنکھوں میں بھی یہ سلائی پھیردو۔ انہوں نے انکار کر دیا میں نے ان سے منت سماجت کی بہ مشکل وہ راضی ہوئے اور میری داہنی آنکھ میں وہ سلائی پھیر دی اب جو میں دیکھتا ہوں تو زمین مجھے ایک شیشے کی طرح معلوم ہونے لگی جیسی اوپر کی چیزیں نظر آتی تھیں ایسی ہی زمین کے اندر کی چیزیں بھی دیکھ رہا تھا۔
انہوں نے مجھے سے کہا اب آپ ہمارے ساتھ ہی کچھ دور چلئے میں نے منظور کر لیا وہ باتیں کرتے ہوئے مجھے ساتھ لیے ہوئے چلے جب میں بستی سے بہت دور نکل گیا تو دونوں نے مجھے دونوں طرف سے پکڑ لیا اور ایک نے اپنی انگلی ڈال کر میری آنکھ نکالی اور اسے پھینک دیا۔ اور مجھیے یونہی بندھا ہوا وہیں چھوڑ کر دونوں کہیں چل دئیے۔ اتفاقاً وہاں سے ایک قافلہ گذرا اور انہوں نے مجھے اس حالت میں دیکھ کررحم کھایا قیدوبند سے مجھے آزاد کر دیا اور میں چلا آیا یہ قصہ ہے میری آنکھ کے جانے کا۔ (ابن عساکر) [تاریخ دمشق:130/19]
سلیمان علیہ السلام کے اس ہدہد کا نام عنبر تھا، آپ فرماتے ہیں اگر فی الواقع وہ غیر حاضر ہے تو میں اسے سخت سزادوں گا اس کے پر نچوادوں گا اور اس کو پھنک دوں گا کہ کیڑے مکوڑے کھاجائیں یا میں اسے حلال کردونگا۔ یا یہ کہ وہ اپنے غیر حاضر ہونے کی کوئی معقول وجہ پیش کر دے۔
اتنے میں ہدہد آ گیا جانوروں نے اسے خبر دی کہ آج تیری خیر نہیں۔ بادشاہ سلامت عہد کر چکے ہیں کہ وہ تجھے مار ڈالیں گے۔ اس نے کہا یہ بیان کرو کہ آپ کے الفاظ کیا تھے؟ انہوں نے بیان کئے تو خوش ہو کر کہنے لگا پھر تو میں بچ جاؤں گا۔ مجاہد فرماتے ہیں اس کے بچاؤ کی وجہ اس کا اپنی ماں کے ساتھ سلوک تھا۔