قرآن مجيد

سورة الشعراء
رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ[48]
موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔[48]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 38، 39، 40، 41، 42، 43، 44، 45، 46، 47، 48،

مناظرہ کے بعد مقابلہ ٭٭

مناظرہ زبانی ہو چکا۔ اب مناظرہ عملاً ہو رہا ہے اس مناظرہ کا ذکر سورۃ الاعراف، سورۃ طہٰ اور اس سورت میں ہے۔ قبطیوں کا ارادہ اللہ کے نور کے بجھانے کا تھا اور اللہ کا ارادہ اس کی نورانیت کے پھیلانے کا تھا۔ پس اللہ کا ارادہ غالب رہا۔ ایمان و کفر کا مقابلہ جب کبھی ہوا ایمان کفر پر غالب رہا۔ اللہ تعالیٰ حق کو غالب کرتا ہے باطل کا سر پھٹ جاتا ہے اور لوگوں کے باطل ارادے ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔ حق آ جاتا ہے باطل بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔

یہاں بھی یہ ہوا ہر ایک شہر میں سپاہی بھیجے گئے۔ چاروں طرف سے بڑے بڑے نامی گرامی جادوگر جمع کئے گئے جو اپنے فن میں کامل اور استاد زمانہ تھے کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد بارہ یا پندرہ یا سترہ یا انیس یا کچھ اوپر تیس یا اسی ہزار کی یا اس سے کم و بیش تھی۔ صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ان تمام کے استاد اور سردار چار شخص تھے۔ سابور عاذور حطحط اور مصفی۔ چونکہ سارے ملک میں شور مچ چکا تھا چاروں طرف سے لوگوں کے غول کے غول وقت مقررہ سے پہلے مصر میں جمع ہو گئے۔

چونکہ یہ کلیہ قاعدہ ہے کہ رعیت اپنے بادشاہ کے مذہب پر ہوتی ہے۔ سب کی زبان سے یہی نکلتا تھا کہ جادوگروں کے غلبہ کے بعد ہم تو ان کی راہ لگ جائیں گے۔ یہ کسی زبان سے نہ نکلا کہ جس طرف حق ہو گا ہم اسی طرف ہو جائیں گے اب موقعہ پر فرعون مع اپنے جاہ چشم کے نکال تمام امراء و رؤسا ساتھ تھے لشکر فوج پلٹن ہمراہ تھی جادوگروں کو اپنے دربار میں اپنے سامنے بلوایا۔ جادوگروں نے بادشاہ سے عہد لینا چاہا اس لیے کہا کہ جب ہم غالب آ جائیں تو بادشاہ ہمیں انعامات سے محروم نہیں رکھیں گے؟ فرعون نے جواب دیا واہ یہ کیسے ہوسکتا ہے نہ صرف انعام بلکہ میں تو تمہیں اپنے خاص رؤسا میں شامل کرونگا اور تم ہمیشہ میرے پاس اور میرے ساتھ ہی رہا کرو گے۔ تم میرے مقرب بن جاؤ گے میری تمام تر توجہ تمہاری ہی طرف ہو گی۔

وہ خوشی خوشی میدان کی طرف چل دیئے۔ وہاں جا کر موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے۔ بولو تم پہلے اپنی استادی دکھاتے ہو؟ یا ہم دکھائیں؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں تم ہی پہلے اپنی بھڑاس نکال لو تاکہ تمہارے دل میں کوئی ارمان نہ رہ جائے یہ جواب پاتے ہی انہوں نے اپنی چھڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈال دیں اور کہنے لگے فرعون کی عزت سے ہمارا غلبہ رہے گا۔

جیسے جاہل عوام جب کسی کام کو کرتے ہیں تو کہتے ہیں یہ فلاں کے ثواب سے۔ سورۃ الاعراف میں ہے «‏‏‏‏قَالَ أَلْقُوا فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُ‌وا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْ‌هَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ‌ عَظِيمٍ» [7-الأعراف:116] ‏‏‏‏ ” جادوگروں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا۔ انہیں ہیبت میں ڈال دیا اور بڑا بھاری جادو ظاہر کیا “۔ سورۃ طہٰ میں ہے کہ ” ان کی لاٹھیاں اور رسیاں ان کے جادو سے ہلتی جلتی معلوم ہونے لگیں “۔

اب موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ میں جو لکڑی تھی اسے میدان میں ڈال دیا جس نے سارے میدان میں ان کی جو کچھ نظربندیوں کی چیزیں تھیں، سب کو ہضم کر لیا۔ پس حق ظاہر ہو گیا اور باطل دب گیا اور ان کا کیا کرایا سب غارت ہو گیا۔ یہ کوئی ہلکی سی بات اور تھوڑی سی دلیل نہ تھی جادوگر تو اسے دیکھتے ہی مسلمان ہوگئے کہ ایک شخص اپنے استاد فن کے مقابلے میں آتا ہے اس کا حال جادوگروں کا سا نہیں۔ وہ کوئی بات نہیں کرتا یقیناً ہمارا جادو صرف نگاہوں کا فریب ہے اور اس کے پاس اللہ کا دیا ہوا معجزہ ہے وہ تو اسی وقت وہیں کے وہیں اللہ کے سامنے سجدے میں گرگئے۔ اور اسی مجمع میں سب کے سامنے اپنے ایمان لانے کا اعلان کیا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لا چکے۔ پھر اپنا قول اور واضح کرنے کے لیے یہ بھی ساتھ ہی کہہ دیا کہ رب العالمین سے ہماری مراد وہ رب ہے جسے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام اپنا رب کہتے ہیں۔

اتنا بڑا معجزہ اس قدر انقلاب فرعون نے اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن ملعون کی قسمت میں ایمان نہ تھا۔ پھر بھی آنکھیں نہ کھلی۔ اور دشمن جاں ہو گیا۔ اور اپنی طاقت سے حق کو کچلنے لگا۔ اور کہنے لگا کہ ہاں میں جان گیا موسیٰ تم سب کے استاد تھے اسے تم نے پہلے سے بھیج دیا پھر تم بظاہر مقابلہ کرنے کے لیے آئے اور باطنی مشورے کے مطابق میدان ہار گئے اور اس کی بات مان گئے پس تمہارا یہ مکر کھل گیا۔