تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 63، 64، 65، 66، 67،
مومنوں کا کردار ٭٭
اللہ کے مومن بندوں کے اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ زمین پر سکون و وقار کے ساتھ، تواضع، عاجزی، مسکینی اور فروتنی سے چلتے پھرتے ہیں۔ تکبر، تجبر، فساد اور ظلم و ستم نہیں کرتے۔
جیسے لقمان رحمہ اللہ نے اپنے لڑکے سے فرمایا تھا کہ اکڑ کر نہ چلا کر۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تصنع اور بناوٹ سے کمر جھکا کر مریضوں کی طرح قدم قدم چلنا۔ یہ تو ریاکاروں کا کام ہے کہ وہ اپنے آپ کو دکھانے کے لیے اور دنیا کی نگاہیں اپنی طرف اٹھانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت اس کے بالکل برعکس تھی۔ آپ کی چال ایسی تھی کہ گویا آپ کسی اونچائی سے اتر رہے ہیں اور گویا کہ زمین آپ کے لیے لپٹی جا رہی ہے۔
سلف صالحین نے بیماروں کی سی تکلف والی چال کو مکروہ فرمایا ہے۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ وہ بہت آہستہ آہستہ چل رہا ہے۔ آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا تو کچھ بیمار ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر یہ کیا چال ہے؟ خبردار! جو اب اس طرح چلا تو کوڑے کھائے گا۔ طاقت کے ساتھ جلدی جلدی چلا کرو۔ پس یہاں مراد تسکین اور وقار کے ساتھ شریفانہ چال چلنا ہے، نہ کہ ضعیفانہ اور مریضانہ۔
چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جب نماز کے لیے آؤ تو دوڑ کر نہ آؤ بلکہ تسکین کے ساتھ آؤ۔ جو جماعت کے ساتھ مل جائے، ادا کر لو اور جو فوت ہو جائے، پوری کر لو۔ [صحیح بخاری:636]
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں نہایت ہی عمدہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ مومنوں کی آنکھیں اور ان کے کان اور ان کے اعضاء جھکے ہوئے اور رکے ہوئے رہتے ہیں، یہاں تک کہ گنوار اور بےوقوف لوگ انہیں بیمار سمجھ لیتے ہیں حالانکہ وہ بیمار نہیں ہوتے بلکہ خوف الٰہی سے جھکے جاتے ہیں۔ ویسے پورے تندرست ہیں لیکن دل اللہ کے خوف سے پر ہیں۔
آخرت کا علم دنیا طلبی سے اور یہاں کے ٹھاٹھ سے انہیں روکے ہوئے ہے۔ یہ قیامت کے دن کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم کو دور کر دیا۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ انہیں دنیا میں کھانے پینے کا غم لگا رہتا تھا، نہیں نہیں، اللہ کی قسم! دنیا کا کوئی غم ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتا تھا۔ ہاں انہیں آخرت کا کھٹکا ہر وقت لگا رہتا تھا۔ جنت کے کسی کام کو وہ بھاری نہیں سمجھتے تھے، ہاں جہنم کا خوف انہیں رلاتا رہتا تھا۔
جو شخص اللہ کے خوف دلانے سے بھی خوف نہ کھائے، اس کا نفس حسرتوں کا مالک ہے۔ جو شخص کھانے پینے کو ہی اللہ کی نعمت سمجھے، وہ کم علم ہے اور عذابوں میں پھنسا ہوا ہے۔
پھر اپنے نیک بندوں کا اور وصف بیان فرمایا کہ جب جاہل لوگ ان سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں تو یہ بھی ان کی طرح جہالت پر نہیں اتر آتے بلکہ درگزر کر لیتے ہیں، معاف فرما دیتے ہیں اور سوائے بھلی بات کے، گندی باتوں سے اپنی زبان آلودہ نہیں کرتے۔
جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جوں جوں دوسرا آپ پر تیز ہوتا، آپ اتنے ہی نرم ہوتے۔ یہی وصف قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوا ہے «وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ۡ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ۡ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ» [28-القصص:55] ” مومن لوگ بے ہودہ باتیں سن کر منہ پھیر لیتے ہیں۔ “
ایک حسن سند سے مسند احمد میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی شخص نے دوسرے کو برا بھلا کہا لیکن اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ تجھ پر سلام ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں کے درمیان فرشتہ موجود تھا، وہ تیری طرف سے گالیاں دینے والے کو جواب دیتا تھا۔ وہ جو گالی تجھے دیتا تھا، فرشتہ کہتا تھا یہ نہیں بلکہ تو۔ اور جب تو کہتا تھا تجھ پر سلام تو فرشتہ کہتا تھا اس پر نہیں بلکہ تجھ پر، تو ہی سلامتی کو پورا حق دار ہے۔ [مسند احمد:445/5:حسن لغیرہ]
پس فرمان ہے کہ یہ اپنی زبان کو گندی نہیں کرتے۔ برا کہنے والوں کو برا نہیں کہتے، سوائے بھلے کلمے کے زبان سے اور کوئی لفظ نہیں نکالتے۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دوسرا ان پر ظلم کرے، یہ صلح اور برداشت کرتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کے ساتھ دن اس طرح گزارتے ہیں کہ ان کی کڑوی کسیلی سن لیتے ہیں۔ رات کو جس حالت میں گزارتے ہیں، اس کا بیان اگلی آیت میں ہے۔
فرماتا ہے کہ رات اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت میں بسر ہوتی ہے، بہت کم سوتے ہیں۔ صبح کو استغفار کرتے ہیں، کروٹیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے۔ امید رحمت ہوتی ہے اور راتوں کی گھڑیوں کو اللہ کی عبادتوں میں گزارتے ہیں۔ دعائیں مانگتے ہیں کہ اے اللہ! عذاب جہنم ہم سے دور رکھ، وہ تو دائمی اور لازمی عذاب ہے۔
یعنی اس کے عذاب بھی سخت اور لازمی اور ابدی۔ اور اس کی عطا اور انعام بھی بے حد، ان گنت اور بے حساب۔ جو چیز آئے اور ہٹ جائے وہ غرام نہیں۔ غرام وہ ہے جو آنے کے بعد ہٹنے اور دور ہونے کا نام ہی نہ لے۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ عذاب جہنم تاوان ہے جو کفران نعمت سے لیا جائے گا۔
انہوں نے اللہ کے دیئے کو اس کی راہ میں نہیں لگایا لہٰذا آج اس کا تاوان یہ بھرنا پڑے گا جہنم کو پر کر دیں۔ وہ بری جگہ ہے، بدمنظر ہے، تکلیف دہ ہے، مصیبت ناک ہے۔
مالک بن حارث رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ جب دوزخی کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنی مدت تک وہ نیچے ہی نیچے چلا جائے گا۔ اس کے بعد جہنم کے ایک دروازے پر اسے روک دیا جائے گا اور کہا جائے گا: تم بہت پیاسے ہو رہے ہو گے، لو ایک جام تو نوش کر لو۔ یہ کہہ کر انہیں کالے ناگ اور زہریلے بچھوؤں کے زہر کا ایک پیالہ پلا دیا جائے گا جس کے پیتے ہی ان کی کھالیں الگ جھڑ جائیں گی، بال الگ ہو جائیں گے، رگیں الگ جا پڑیں گی، ہڈیاں جدا جدا ہو جائیں گی۔
عبید بن عمیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جہنم میں گڑھے ہیں، کنویں ہیں۔ ان میں سانپ ہیں جیسے بختی اونٹ اور بچھو ہیں جیسے خچر۔ جب کسی جہنمی کو جہنم میں ڈالا جاتا ہے تو وہ وہاں سے نکل کر آتے اور انہیں لپٹ جاتے ہیں، ہونٹوں پر، سروں پر اور جسم کے اور حصوں پر ڈستے اور ڈنک مارتے ہیں۔ جس سے ان کے سارے بدن میں زہر پھیل جاتا ہے اور پھکنے لگتے ہیں۔ سارے سر کی کھال جھلس کر گر پڑتی ہے پھر وہ سانپ چلے جاتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جہنمی ایک ہزار سال تک جہنم میں چلاتا رہے گا «یَا حَنَّانُ یَا مَنَّانُ» تب اللہ تعالیٰ جبرائیل علیہ السلام سے فرمائے گا: جاؤ دیکھو، یہ کیا کہہ رہا ہے؟ جبرائیل علیہ السلام آ کر دیکھیں گے کہ سب جہنمی برے حال سر جھکائے آہ و زاری کر رہے ہیں۔ جا کر جناب باری تعالیٰ میں خبر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: پھر جاؤ، فلاں فلاں جگہ یہ شخص ہے، جاؤ اور اسے لے آؤ۔ یہ بحکم الٰہی جائیں گے اور اسے لا کر اللہ کے سامنے کھڑا کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا کہ تو کیسی جگہ پر ہے؟ یہ جواب دے گا کہ اے اللہ! ٹھہرنے کی بری جگہ اور سونے بیٹھے کی بھی بدترین جگہ ہے۔ اللہ فرمائے گا: اچھا اب اسے اس کی جگہ واپس لے جاؤ تو یہ گڑگڑائے گا، عرض کرے گا کہ اے میرے ارحم الراحمین اللہ! جب تو نے مجھے اس سے باہر نکالا تو تیری ذات ایسی نہیں کہ پھر مجھے اس میں داخل کر دے، مجھے تو تجھ سے رحم و کرم کی ہی امید ہے۔ اے اللہ! بس اب مجھ پر کرم فرما۔ جب تو نے مجھے جہنم سے نکالا تو میں خوش ہو گیا تھا کہ اب تو اس میں نہ ڈالے گا۔ اس مالک و رحمن و رحیم اللہ کو بھی رحم آ جائے گا اور فرمائے گا: اچھا میرے بندے کو چھوڑ دو۔ [مسند احمد:230/3:ضعیف]
پھر ان کا ایک اور وصف بیان ہوتا ہے کہ نہ تو وہ مسرف ہیں، نہ بخیل ہیں، نہ بےجا خرچ کرتے ہیں، نہ ضروری اخراجات میں کوتاہی کرتے ہیں بلکہ میانہ روی سے کام لیتے ہیں۔ نہ ہی ایسا کرتے ہیں کہ اپنے والوں کو، اہل و عیال کو بھی تنگ رکھیں، نہ ایسا کرتے ہیں کہ جو ہو سب لٹا دیں۔
اسی کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ فرماتا ہے: «وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا» [17-الإسراء:29] یعنی ” نہ تو اپنے ہاتھ اپنی گردن سے باندھ اور نہ انہیں بالکل ہی چھوڑ دے۔ “
مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اپنی گزران میں میانہ روی کرنا انسان کی سمجھ داری کی دلیل ہے۔ [مسند احمد:194/5:ضعیف]
اور حدیث میں ہے: جو افراط تفریط سے بچتا ہے، وہ کبھی فقیر محتاج نہیں ہوتا۔ [مسند احمد:447/1:ضعیف]
بزار کی حدیث میں ہے کہ امیری میں، فقیری میں، عبادت میں میانہ روی بڑی ہی بہتر اور احسن چیز ہے۔ [مسند بزار:3604:ضعیف]
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ کی راہ میں کتنا ہی چاہو دو، اس کا نام اسراف نہیں ہے۔
ایاس بن معاویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جہاں کہیں تو حکم اللہ سے آگے بڑھ جائے، وہی اسراف ہے۔
اور بزرگوں کا قول ہے: اللہ کی نافرمانی کا خرچ اسراف کہلاتا ہے۔