وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں، کھڑے نہیں ہوں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر خبطی بنا دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے کہا بیع تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا، پھر جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت آئے پس وہ باز آجائے تو جو پہلے ہو چکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو دوبارہ ایسا کرے تو وہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔[275]
چونکہ پہلے ان لوگوں کا ذِکر ہوا ہے جو نیک کام صدقہ خیرات کرنے والے زکوٰتیں دینے والے حاجت مندوں اور رشتہ داروں کی مدد کرنے والے غرض ہر حال میں اور ہر وقت دوسروں کے کام آنے والے تھے تو ان کا بیان ہو رہا ہے جو کسی کو دینا تو ایک طرف رہا دوسروں سے چھیننے ظلم کرنے اور ناحق اپنے پرایوں کا مال ہضم کرنے والے ہیں، تو فرمایا کہ یہ سودخور لوگ اپنی قبروں سے دیوانوں اور پاگلوں خبطیوں اور بیہوشوں کی طرح اُٹھیں گے، پاگل ہوں گے، کھڑے بھی نہ ہو سکتے ہوں گے، ایک قرأت میں «مِنَ الۡمَسِّ» کے بعد «یَوْمَا الْقِیاَمَةَ» کا لفظ بھی ہے، ان سے کہا جائے گا کہ لو اب ہتھیار تھام لو اور اپنے رب سے لڑنے کیلئے آمادہ ہو جاؤ
شب معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھروں کی مانند تھے، پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ بتایا گیا سود اور بیاج لینے والے ہیں، اور روایت میں ہے کہ ان کے پیٹوں میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو ڈستے رہتے تھے۔ [سنن ابن ماجه:2273، قال الشيخ الألباني:ضعیف جداً] اور ایک مطول حدیث میں ہے کہ ہم جب ایک سرخ رنگ نہر پر پہنچے جس کا پانی مثل خون کے سرخ تھا تو میں نے دیکھا اسں میں کچھ لوگ بمشکل تمام کنارے پر آتے ہیں تو ایک فرشتہ بہت سے پتھر لیے بیٹھا ہے، وہ ان کا منہ پھاڑ کر ایک پتھر ان کے منہ میں اتار دیتا ہے، وہ پھر بھاگتے ہیں پھر یہی ہوتا ہے، پوچھا تو معلوم ہوا یہ سو خوروں کا گروہ ہے، [صحیح بخاری:7047:صحیح]
ان پر یہ وبال اس باعث ہے کہ یہ کہتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی ہے ان کا یہ اعتراض شریعت اور احکام الٰہی پر تھا وہ سود کو تجارت کی طرح حلال جانتے تھے، جبکہ بیع پر سود کا قیاس کرنا ہی غلط ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرکین تو تجارت کا شرعاً جائز ہونے کے قائل نہیں ورنہ یوں کہتے کہ سود مثل بیع ہے، ان کا کہنا یہ تھا کہ تجارت اور سود دونوں ایک جیسی چیزیں ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک کو حلال کہا جائے اور دوسری کو حرام؟
پھر انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ حلت و حرمت اللہ کے حکم کی بنا پر ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ بھی کافروں کا قول ہی ہو، تو بھی انتہائی اچھے انداز سے جواباً کہا گیا اس میں مصلحت الٰہیہ کہ ایک کو اللہ نے حرام ٹھہرایا اور دوسرے کو حلال پھر اعتراض کیسا؟ علیم و حکیم اللہ کے حکموں پر اعتراض کرنے والے تم کون؟ کس کی ہستی ہے؟ اس سے بازپرس کرنے کی، تمام کاموں کی حقیقت کو ماننے والا تو وہی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ میرے بندوں کا حقیقی نفع کس چیز میں اور فی الواقع نقصان کس چیز میں ہے، تو نفع والی چیزیں حلال کرتا ہے اور نقصان پہنچانے والی چیزیں حرام کرتا ہے، کوئی ماں اپنے دودھ پیتے بچے پر اتنی مہربان نہ ہو گی جتنا اللہ اپنے بندوں پر ہے، وہ روکتا ہے تو بھی مصلحت سے اور حکم دیتا ہے تو بھی مصلحت سے، اپنے رب کی نصیحت سن کر جو باز آ جائے اس کے پہلے کئے ہوئے تمام گناہ معاف ہیں،
جیسا فرمایا «عفا اللہ عما سلف» اور جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایا تھا جاہلیت کے تمام سُود آج میرے ان قدموں تلے دفن کر دئیے گئے ہیں، چنانچہ سب سے پہلا سود جس سے میں دست بردار ہوتا ہوں وہ عباس رضی اللہ عنہما کا سود ہے، [سنن ابوداود:3334، قال الشيخ الألباني:صحیح] پس جاہلیت میں جو سود لے چکے تھے ان کو لوٹانے کا حکم نہیں ہوا۔
، ایک روایت میں ہے کہ ام محبہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی ام ولد تھیں، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں اور کہا کہ میں نے ایک غلام زید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں آٹھ سو کا اس شرط پر بیچا کہ جب ان کے پاس رقم آئے تو وہ ادا کر دیں، اس کے بعد انہیں نقدی کی ضرورت پڑی تو وقت سے پہلے ہی وہ اسے فروخت کرنے کو تیار ہو گئے، میں نے چھ سو کا خرید لیا، ام المؤمنین صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تو نے بھی اور اس نے بھی بالکل خلاف شرع کیا، بہت برا کیا، جاؤ زید رضی اللہ عنہ سے کہہ دو اگر وہ توبہ نہ کرے گا تو اس کا جہاد بھی غارت جائے گا جو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہے، میں نے کہا اگر وہ دو سو جو مجھے اس سے لینے ہیں چھوڑ دوں اور صرف چھ سو وصول کر لوں تاکہ مجھے میری پوری رقم آٹھ سو کی مل جائے، آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں، پھر آپ نے «فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ» [ البقرہ: 275 ] والی آیت پڑھ کر سنائی [دار قطنی:52/3 ] یہ اثر بھی مشہور ہے اور ان لوگوں کی دلیل ہے جو عینہ کے مسئلے کو حرام بتاتے ہیں اس کی تفصیل کتاب الاحکام میں ہے اور احادیث بھی ہیں، «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔
پھر فرمایا کہ حرمت کا مسئلہ کانوں میں پڑنے کے بعد بھی سود لے تو وہ سزا کا مستحق ہے ہمیشہ کیلئے جہنمی ہے، جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا جو مخابرہ کو اب بھی نہ چھوڑے وہ اللہ کے رسول سے لڑنے کیلئے تیار ہو جائے۔ [سنن ابوداود:3406، قال الشيخ الألباني:ضعیف] «مخابرہ» اسے کہتے ہیں کہ ایک شخص دوسروں کی زمین میں کھیتی بوئے اور اس سے یہ طے ہو کہ زمین کے اس محدود ٹکڑے سے جتنا اناج نکلے وہ میرا باقی تیرا اور“ مزابنہ“ اسے کہتے ہیں کہ درخت میں جو کھجوریں ہیں وہ میری ہیں اور میں اس کے بدلے اپنے پاس سے تجھے اتنی اتنی کھجوریں تیار دیتا ہوں، اور «محاقلہ» اسے کہتے ہیں کہ کھیت میں جو اناج خوشوں میں ہے اسے اپنے پاس سے کچھ اناج دے کر خریدنا، ان تمام صورتوں کو شریعت نے حرام قرار دیا تاکہ سود کی جڑیں کٹ جائیں، اس لیے کہ ان صورتوں میں صحیح طور پر کیفیت تبادلہ کا اندازہ نہیں ہوسکتا، پس بعض علماء نے اس کی کچھ علت نکالی، بعض نے کچھ، ایک جماعت نے اسی قیاس پر ایسے تمام کاروبار کو منع کیا، دوسری جماعت نے برعکس کیا، لیکن دوسری علت کی بنا پر۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ ذرا مشکل ہے۔ یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں افسوس کہ تین مسئلے پوری طرح میری سمجھ میں نہیں آئے دادا کی میراث کا کلالہ اور سود کی صورتوں کا۔ [صحیح بخاری:5588:صحیح] یعنی بعض کاروبار کی ایسی صورتیں جن پر سود کا شبہ ہوتا ہے، اور وہ ذرائع جو سود کی مماثلت تک لے جاتے ہوں جب یہ حرام ہیں تو وہ بھی حرام ہی ٹھہریں گے، جیسا کہ وہ چیز واجب ہو جاتی ہے جس کے بغیر کوئی واجب پورا نہ ہوتا ہو،
بخاوی و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جس طرح حلال ظاہر ہے، اسی طرح حرام بھی ظاہر ہے لیکن کچھ کام درمیانی شبہ والے بھی ہیں، ان شبہات والے کاموں سے بچنے والے نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا اور جو ان مشتبہ چیزوں میں پڑا وہ حرام میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے۔ اس چرواہے کی طرح جو کسی کی چراگاہ کے آس پاس اپنے جانور چراتا ہو، تو ممکن ہے کوئی جانور اس چراگاہ میں بھی منہ مار لے، [صحیح بخاری:52:صحیح] سنن میں حدیث ہے کہ جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور اسے لے لو جو شک شبہ سے پاک ہے، [سنن ترمذي:2518، قال الشيخ الألباني:صحیح]
دوسری حدیث میں ہے گناہ وہ ہے جو دِل میں کھٹکے طبیعت میں تردد ہو اور اس کے بارے میں لوگوں کا واقف ہونا اسے برا لگتا ہو، [صحیح مسلم:2553:صحیح] ایک اور روایت میں ہے اپنے دِل سے فتویٰ پوچھ لو لوگ چاہے کچھ بھی فتویٰ دیتے ہوں، [مسند احمد:227/4:حسن] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سود کی حرمت سب سے آخر میں نازل ہوئی۔ [صحیح بخاری:4544] سیدنا عمر رضی اللہ عنہما یہ فرما کر کہتے ہیں افسوس کہ اس کی پوری تفسیر بھی مجھ تک نہ پہنچ سکی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا۔ لوگو سود کو بھی چھوڑو اور ہر اس چیز کو بھی جس میں سود کا بھی شائبہ ہو۔ [مسند احمد:36/1:صحیح]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے ایک خطبہ میں فرمایا شاید میں تمہیں بعض ان چیزوں سے روک دوں جو تمہارے لیے نفع والی ہوں اور ممکن ہے میں تمہیں کچھ ایسے احکام بھی دوں جو تمہاری مصلحت کیخلاف ہوں، سنو! قرآن میں سب سے آخر سود کی حرمت کی آیت اتری، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا اور افسوس کہ اسے کھول کر ہمارے سامنے بیان نہ فرمایا پس تم ہر اس چیز کو چھوڑو جو تمہیں شک میں ڈالتی ہو۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:6306] ایک حدیث میں ہے کہ سود کے تہتر گناہ ہیں جن میں سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے بدکاری کرے، [سنن ابن ماجه:2274، قال الشيخ الألباني:صحیح] سب سے بڑا سود مسلمان کی ہتک عزت کرنا ہے۔ [بیهقی فی شعب الایمان:5519] فرماتے ہیں ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ لوگ سود کھائیں گے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کیا سب کے سب؟ فرمایا جو نہ کھائے گا اسے بھی غبار تو پہنچے گا ہی، [سنن ابوداود:3331، قال الشيخ الألباني:ضعیف]
پس غبار سے بچنے کیلئے ان اسباب کے پاس بھی نہ پھٹکنا چاہیئے جو ان حرام کاموں کی طرف پہنچانے والے ہوں، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب سورۃ البقرہ کی آخری آیت حرمت سود میں نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں آ کر اس کی تلاوت کی اور سودی کاروبار اور سودی تجارت کو حرام قرار دیا، [صحیح بخاری:2084:صحیح] بعض ائمہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح شراب اور اس طرح کی تمام خرید و فروخت وغیرہ وہ وسائل [ ذرائع ] ہیں جو اس تک پہنچانے والے ہیں سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کئے ہیں، صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت اس لیے کی کہ جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے حیلہ سازی کر کے چربی کو پگھلا کر بیچا، [صحیح بخاری:2223:صحیح] اور اس کی قیمت کھائی غرض دھوکہ بازی اور حیلہ سازی کرکے حرام کو حلال بنانے کی کوشش کی چنانچہ یہ کوشش کرنا بھی حرام ہے اور موجب لعنت ہے،
اسی طرح پہلے وہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو شخص دوسرے کی تین طلاق والی عورت سے اس لیے نکاح کرے کہ پہلے خاوند کیلئے حلال ہو جائے اس پر اور اس خاوند پر اللہ کی پھٹکار اور اس کی لعنت ہے، آیت «حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ» [ البقرہ: 230 ] کی تفسیر میں دیکھ لیجئے، حدیث شریف میں ہے سود کھانے والے پر کھلانے والے پر شہادت دینے والوں پر گواہ بننے والوں پر لکھنے والے پر سب پر اللہ کی لعنت ہے، [صحیح مسلم:1598:صحیح] ظاہر ہے کاتب و شاہد کو کیا ضرورت پڑی ہے جو وہ خواہ مخواہ اللہ کی لعنت اپنے اوپر لے، اسی طرح بظاہر عقد شرعی کی صورت کا اظہار اور نیت میں فساد رکھنے والوں پر بھی اللہ کی لعنت ہے۔ حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں بلکہ تمہارے دِلوں اور نیتوں کو دیکھتے ہیں۔ [صحیح مسلم:2564:صحیح] علامہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان حیلوں حوالوں کے رَد میں ایک مستقل کتاب [ ”ابطال التحلیل“ ] لکھی ہے جو اس موضوع میں بہترین کتاب ہے اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ان سے خوش ہو۔ [آمین]