ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گستاخ پر اللہ کی لعنت ٭٭
جب کہ عام مسلمان عورتوں پر طوفان اٹھانے والوں کی سزا یہ ہے تو انبیاء علیہم السلام کی بیویوں پر جو مسلمانوں کی مائیں ہیں، بہتان باندھنے والوں کی سزا کیا ہوگی؟ اور خصوصا اس بیوی پر جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں رضی اللہ عنہا۔
علماء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ ان آیتوں کے نزول کے بعد بھی جو شخص ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کو اس الزام سے یاد کرے، وہ کافر ہے کیونکہ اس نے قرآن پاک کے خلاف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور ازواج مطہرات «رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُنَّ وَأَرْضَاهُنَّ» کے بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ وہ بھی مثل صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
فرماتا ہے کہ ” ایسے موذی بہتان پرداز دنیا اور آخرت میں لعنت اللہ کے مستحق ہیں “۔ جیسے اور آیت میں ہے «اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا» [33-الأحزاب:57] ، یعنی ” جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے رسواکرنے والے عذاب تیار ہیں “۔
بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ مخصوص ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں۔ سعید بن جبیر، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے۔
ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ نقل کیا ہے لیکن پھر جو تفصیل وار روایت لائے ہیں اس میں آپ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگنے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنے اور اس آیت کے نازل ہونے کا ذکر ہے لیکن آپ رضی اللہ عنہا کے ساتھ اس حکم کے مخصوص ہونے کا ذکر نہیں۔ پس سبب نزول گو خاص ہو لیکن حکم عام رہتا ہے۔ ممکن ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ کے قول کا بھی یہی مطلب ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ کل ازواج مطہرات «رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُنَّ وَأَرْضَاهُنَّ» کا تو یہ حکم ہے لیکن اور مومنہ عورتوں کا یہ حکم نہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس آیت سے تو مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں «رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُنَّ وَأَرْضَاهُنَّ» ہیں کہ اہل نفاق جو اس تہمت میں تھے، سب راندہ درگاہ ہوئے، لعنتی ٹھہرے اور غضب اللہ کے مستحق بن گئے۔
اس کے بعد عام مومنہ عورتوں پر بدکاری کا بہتان باندھنے والوں کے حکم میں آیت «وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا وَاُولٰىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ» [24-النور:5، 4] ، اتری پس انہیں کوڑے لگیں گے۔ اگر انہوں نے توبہ کی توبہ تو قبول ہے لیکن گواہی ان کی ہمیشہ تک غیر معبتر رہے گی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سورۃ النور کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ”یہ آیت توحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں «رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُنَّ وَأَرْضَاهُنَّ» کے بارے میں اتری ہے، ان بہتان بازوں کی توبہ بھی قبول نہیں۔ اس آیت میں ابہام ہے، اور چار گواہ نہ لاسکنے کی آیت عام ایماندار عورتوں پر تہمت لگانے والوں کے حق میں ہے، ان کی توبہ مقبول ہے“، یہ سن کر اکثر لوگوں کا ارادہ ہوا کہ آپ کی پیشانی چوم لیں۔ کیونکہ آپ نے نہایت ہی عمدہ تفسیر کی تھی۔ ابہام سے مراد یہ ہے کہ ہر پاک دامن عورت کی شان میں حرمت تہمت عام ہے، اور ایسے سب لوگ ملعون ہیں۔
عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہر ایک بہتان باز اس حکم میں شامل ہے لیکن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بطور اولیٰ ہیں۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی عموم ہی کو پسند فرماتے ہیں اور یہی صحیح بھی ہے اور عموم کی تائید میں یہ حدیث بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات گناہوں سے بچو جو مہلک ہیں ۔ پوچھا گیا وہ کیا ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کسی کو بلا وجہ مار ڈالنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جہاد سے بھاگنا، پاک دامن بھولی مومنہ پر تہمت لگانا ۔ [صحیح بخاری:2766]
اور حدیث میں ہے پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے والے کی سو سال کی نیکیاں غارت ہیں ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:3023:ضعیف]
اعضاء کی گواہی ٭٭
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ”جب مشرکین دیکھیں گے کہ جنت میں سوائے نمازوں کے اور کوئی نہیں بھیجا جاتا تو وہ کہیں گے آؤ ہم بھی انکار کردیں چنانچہ اپنے شرک کا یہ انکار کردیں گے۔ اسی وقت ان کے منہ پر مہر لگ جائے گی اور ہاتھ پاؤں گواہی دینے لگیں گے اور اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کافروں کے سامنے جب ان کی بداعمالیاں پیش کی جائیں گی تو وہ انکار کر جائیں گے اور اپنی بے گناہی بیان کرنے لگیں گے تو کہا جائے گا یہ ہیں تمہارے پڑوسی یہ تمہارے خلاف شہادت دے رہے ہیں۔ یہ کہیں گے یہ سب جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا کہ اچھا خود تمہارے کنبے کے قبیلے کے لوگ موجود ہیں۔ یہ کہہ دیں گے یہ بھی جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا۔ اچھا تم قسمیں کھاؤ، یہ قسمیں کھا لیں گے پھر اللہ انہیں گونگا کر دے گا اور خود ان کے ہاتھ پاؤں ان کی بداعمالیوں کی گواہی دیں گے۔ پھر انہیں جہنم میں بھیج دیا جائے گا ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:25888:ضعیف]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئے اور فرمانے لگے، جانتے ہو میں کیوں ہنسا؟ ہم نے کہا اللہ ہی جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ قیامت کے دن اپنے رب سے جو حجت بازی کرے گا اس پر یہ کہے گا کہ اللہ کیا تو نے مجھے ظلم سے نہیں روکا تھا؟ اللہ فرمائے گا ” ہاں “۔ تو یہ کہے گا، بس آج جو گواہ میں سچا مانوں، اسی کی شہادت میرے بارے میں معتبر مانی جائے۔ اور وہ گواہ سوا میرے اور کوئی نہیں۔ اللہ فرمائے گا، ” اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ رہ “، اب منہ پر مہر لگ جائے گی اور اعضاء سے سوال ہوگا تو وہ سارے عقدے کھول دیں گے۔ اس وقت بندہ کہے گا، تم غارت ہو جاؤ، تمہیں بربادی آئے تمہاری طرف سے ہی تو میں لڑ جھگڑ رہا تھا ۔ [صحیح مسلم:2969]
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے تھے ”اے ابن آدم تو خود اپنی بد اعمالیوں کا گواہ ہے، تیرے کل جسم کے اعضاء تیرے خلاف بولیں گے، ان کا خیال رکھ اللہ سے پوشیدگی اور ظاہری میں ڈرتا رہ۔ اس کے سامنے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، اندھیرا اس کے سامنے روشنی کی مانند ہے۔ چھپا ہوا اس کے سامنے کھلا ہوا ہے۔ اللہ کے ساتھ نیک گمانی کی حالت میں مرو۔ اللہ ہی کے ساتھ ہماری قوتیں ہیں۔“
یہاں دین سے مراد حساب ہے۔ جمہور کی قرأت میں حق کا زبر ہے کیونکہ وہ دین کی صفت ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ نے «الْحَقَّ» پڑھا ہے کہ یہ لغت ہے لفظ اللہ کی۔ ابی بن کعب کے مصحف میں «يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ الْحَقُّ دِينَهُمْ» بعض سلف سے پڑھنا مروی ہے۔ ” اس وقت جان لیں گے کہ اللہ کے وعدے وعید حق ہیں۔ اس کا حساب عدل والا ہے ظلم سے دور ہے “۔