قرآن مجيد

سورة النور
لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُبِينٌ[12]
کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا اور کہا کہ یہ صریح بہتان ہے۔[12]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 12، 13،

اخلاق و آداب کی تعلیم ٭٭

ان آیتوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ مومنوں کو ادب سکھاتا ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں جو کلمات منہ سے نکالے وہ ان کی شایان شان نہ تھے بلکہ انہیں چاہیئے تھا کہ یہ کلام سنتے ہی اپنی شرعی ماں کے ساتھ کم از کم وہ خیال کرتے جو اپنے نفسوں کے ساتھ کرتے، جب کہ وہ اپنے آپ کو بھی ایسے کام کے لائق نہ پاتے تو شان ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کو اس سے بہت اعلیٰ اور بالا جانتے۔

ایک واقعہ بھی بالکل اسی طرح کا ہوا تھا، ابوایوب خالد بن زید انصاری رضی اللہ عنہ سے ان کی بیوی صاحبہ ام ایوب رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا آپ نے وہ بھی سنا جو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت کہا جا رہا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں اور یہ یقیناً جھوٹ ہے۔ ام ایوب تم ہی بتاؤ کیا تم کبھی ایسا کر سکتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ نعوذ باللہ ناممکن۔‏‏‏‏ آپ نے فرمایا پس سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو تم سے کہیں افضل اور بہتر ہیں۔‏‏‏‏

پس جب آیتیں اتریں تو پہلے تو بہتان بازوں کا ذکر ہوا۔ یعنی حسان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا پھر ان آیتوں میں ذکر ہوا، سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا کی اس بات چیت کا جو اوپر مذکور ہوئی۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ یہ مقولہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا تھا۔ الغرض مومنوں کو صاف باطن رہنا چاہیئے اور اچھے خیال کرنے چاہئیں بلکہ زبان سے بھی ایسے واقعہ کی تردید اور تکذیب کردینی چاہیئے۔ اس لیے کہ جو کچھ واقعہ گزرا اس میں شک شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کھلم کھلا سواری پر سوار دن دیہاڑے بھرے لشکر میں پہنچی ہیں، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اگر اللہ نہ کرے خاکم بدہن کوئی بھی ایسی بات ہوتی تو یہ اس طرح کھلے بندوں عام مجمع میں نہ آتے بلکہ خفیہ اور پوشیدہ طور پر شامل ہو جاتے جو کسی کو کانوں کان خبر تک نہ پہنچے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ بہتان بازوں کی زبان نے جو قصہ گھڑا وہ محض جھوٹ بہتان اور افترا ہے۔ جس سے انہوں نے اپنے ایمان اور اپنی عزت کو غارت کیا۔

پھر فرمایا کہ ” ان بہتان بازوں نے جو کچھ کہا اپنی سچائی پر چار گواہ واقعہ کے کیوں پیش نہیں کئے؟ اور جب کہ یہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو شرعاً اللہ کے نزدیک وہ جھوٹے ہیں، فاسق و فاجر ہیں “۔