قرآن مجيد

سورة المؤمنون
لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ[100]
تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں۔ ہرگز نہیں، یہ تو ایک بات ہے جسے وہ کہنے والا ہے اور ان کے پیچھے اس دن تک جب وہ اٹھائے جائیں گے، ایک پردہ ہے۔[100]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 99، 100،

بعد از مرگ ٭٭

بیان ہو رہا ہے کہ موت کے وقت کفار اور بدترین گناہگار سخت نادم ہوتے ہیں اور حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کرتے ہیں کہ کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں۔ تاکہ ہم نیک اعمال کر لیں۔ لیکن اس وقت وہ امید فضول، یہ آرزو لا حاصل ہے چنانچہ سورۃ المنافقون میں فرمایا جو ہم نے دیا ہے ہماری راہ میں دیتے رہو، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت آ جائے اس وقت وہ کہے کہ اے اللہ ذرا سی مہلت دیدے تو میں صدقہ خیرات کر لوں اور نیک بندہ بن جاؤں لیکن اجل آ جانے کے بعد کسی کو مہلت نہیں ملتی تمہارے تمام اعمال سے اللہ تعالیٰ خبردار ہے اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔ مثلا «وَاَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَاْتِيْهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ» ‏‏‏‏ [ 14- ابراهيم: 44 ] ‏‏‏‏ اور آیت «يَوْمَ يَاْتِيْ تَاْوِيْلُهٗ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بالْحَقِّ فَهَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ قَدْ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ» [ 7- الاعراف: 53 ] ‏‏‏‏ اور آیت «وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ» [ 32- السجدة: 12 ] ‏‏‏‏ تک اور آیت «وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِن قَبْلُ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ» [ 6-الأنعام: 27، 28 ] ‏‏‏‏ تک اور آیت «وَتَرَى الظّٰلِمِيْنَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ يَقُوْلُوْنَ هَلْ اِلٰى مَرَدٍّ مِّنْ سَبِيْلٍ» [ 42- الشورى: 44 ] ‏‏‏‏ تک اور آیت «قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَاَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ» [ 40- غافر: 11 ] ‏‏‏‏ اور اس کے بعد کی آیت «وَهُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْهَا رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيْرُ فَذُوْقُوْا فَمَا للظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ» [ 35- فاطر: 37 ] ‏‏‏‏، وغیرہ۔

ان آیتوں میں بیان ہوا ہے کہ ایسے بدکار لوگ موت کو دیکھ کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے کی پیشی کے وقت جہنم کے سامنے کھڑے ہو کر دنیا میں واپس آنے کی تمنا کریں گے اور نیک اعمال کرنے کا وعدہ کریں گے۔ لیکن ان وقتوں میں ان کی طلب پوری نہ ہو گی۔ یہ تو وہ کلمہ ہے جو بہ مجبوری ایسے آڑے وقتوں میں ان کی زبان سے نکل ہی جاتا ہے اور یہ بھی کہ یہ کہتے ہیں مگر کرنے کے نہیں۔ اگر دنیا میں واپس لوٹائے بھی جائیں تو عمل صالح کر کے نہیں دینے کے بلکہ ویسے ہی رہیں گے جسے پہلے رہے تھے یہ تو جھوٹے اور لپاڑئیے ہیں کتنا مبارک وہ شخص ہے جو اس زندگی میں نیک عمل کر لے اور کیسے بدنصیب یہ لوگ ہیں کہ آج نہ انہیں مال و اولاد کی تمنا ہے۔ نہ دنیا اور زینت دنیا کی خواہش ہے صرف یہ چاہتے ہیں کہ دو روز کی زندگی اور ہو جائے تو کچھ نیک اعمال کر لیں لیکن تمنا بے کار، آرزو بےسود، خواہش بے جا۔

یہ بھی مروی ہے کہ ان کی تمنا پر انہیں اللہ ڈانٹ دے گا اور فرمائے گا کہ یہ بھی تمہاری بات ہے عمل اب بھی نہیں کرو گے۔ حضرت علاء بن زیاد رحمتہ اللہ علیہ کیا ہی عمدہ بات فرماتے ہیں۔ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، تم یوں سمجھ لو کہ میری موت آ چکی تھی، لیکن میں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے چند روز کی مہلت دے دی جائے تاکہ میں نیکیاں کر لوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کافر کی اس امید کو یاد رکھو اور خود زندگی کی گھڑیاں اطاعت اللہ میں بسر کرو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب کافر اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اپنا جہنم کا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے تو کہتا ہے میرے رب مجھے لوٹا دے میں توبہ کر لوں گا اور نیک اعمال کرتا رہوں گا جواب ملتا ہے کہ جتنی عمر تجھے دی گئی تھی تو ختم کر چکا پھر اس کی قبر اس پر سمٹ جاتی ہے اور تنگ ہو جاتی ہے اور سانپ بچھو چمٹ جاتے ہیں۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں گناہگاروں پر ان کی قبریں بڑی مصیبت کی جگہیں ہوتی ہیں ان کی قبروں میں انہیں کالے ناگ ڈستے رہتے ہیں جن میں سے ایک بہت بڑا اس کے سرہانے ہوتا ہے ایک اتنا ہی بڑا پاؤں کی طرف ہوتا ہے وہ سر کی طرف سے ڈسنا اور اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے اور یہ پیروں کی طرف سے کاٹنا اور اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ بیچ کی جگہ آ کر دونوں اکٹھے ہو جاتے ہیں پس یہ ہے وہ برزخ جہاں یہ قیامت تک رہیں گے۔

من ورائہم کہ معنی کئے گے ہیں کہ ان کے آگے برزخ ایک حجاب اور آڑ ہے دنیا اور آخرت کے درمیان وہ نہ تو صحیح طور دنیا میں ہیں کہ کھائیں پیئں نہ آخرت میں ہیں کہ اعمال کے بدلے میں آ جائیں بلکہ بیچ ہی بیچ میں ہیں پس اس آیت میں ظالموں کو ڈرایا جا رہا ہے کہ انہیں عالم برزخ میں بھی بڑے بھاری عذاب ہوں گے جیسے فرمان ہے «مِنْ وَّرَاىِٕهِمْ جَهَنَّمُ وَلَا يُغْنِيْ عَنْهُمْ مَّا كَسَبُوْا شَيْـــــًٔا وَّلَا مَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَاءَ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ» [ 45- الجاثية: 10 ] ‏‏‏‏ ان کے آگے جہنم ہے اور آیت میں ہے «وَمِنْ وَّرَاىِٕهٖ عَذَابٌ غَلِيْظٌ» [ 14- ابراھیم: 17 ] ‏‏‏‏ ان کے آگے سخت عذاب ہے برزخ کا۔ قبر کا یہ عذاب ان پر قیامت کے قائم ہونے تک برابر جاری رہے گا۔ جیسے حدیث میں ہے کہ وہ اس میں برابر عذاب میں رہے گا یعنی زمین میں۔ [سنن ترمذي:1071،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏