قرآن مجيد

سورة المؤمنون
لَا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ إِنَّكُمْ مِنَّا لَا تُنْصَرُونَ[65]
آج مت بلبلاؤ، بے شک تم کو ہماری طرف سے مدد نہ دی جائے گی۔[65]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 62، 63، 64، 65، 66، 67،

آسان شریعت ٭٭

اللہ تعالیٰ نے شریعت آسان رکھی ہے۔ ایسے احکام نہیں دئیے جو انسانی طاقت سے خارج ہوں۔ پھر قیامت کے دن وہ اعمال کا حساب لے گا جو سب کے سب کتابی صورت میں لکھے ہوئے موجود ہوں گے۔ یہ نامہ اعمال صحیح صحیح طور پر ان کا ایک ایک عمل بتادے گا۔ کسی طرح کا ظلم کسی پر نہ کیا جائے گا کوئی نیکی کم نہ ہو گی ہاں اکثر مومنوں کی برائیاں معاف کر دی جائیں گی۔ لیکن مشرکوں کے دل قرآن سے بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں۔ اس کے سوا بھی ان کی اور بد اعمالیاں بھی ہیں جیسے شرک وغیرہ جسے یہ دھڑلے سے کر رہے ہیں۔ تاکہ ان کی برائیاں انہیں جہنم سے دور نہ رہنے دیں۔ چنانچہ وہ حدیث گزر چکی جس میں فرمان ہے کہ انسان نیکی کے کام کرتے کرتے جنت سے صرف ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے جو اس پر تقدیر کا لکھا غالب آ جاتا اور بداعمالیاں شروع کر دیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جہنم واصل ہو جاتا ہے۔ [صحیح بخاری:6594] ‏‏‏‏

یہاں تک کہ جب ان میں سے آسودہ حال دولت مند لوگوں پر عذاب الٰہی آپڑتا ہے تو اب وہ فریاد کرنے لگتے ہیں۔ سورۃ مزمل میں فرمان ہے کہ «وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا إِنَّ لَدَيْنَا أَنكَالًا وَجَحِيمًا وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا» [ 73-المزمل: 11- 13 ] ‏‏‏‏ مجھے ان مالدار جھٹلانے والوں پر چھوڑ دیجئیے انہیں کچھ مہلت اور دیجئیے ہمارے پاس بیڑیاں بھی ہیں اور جہنم بھی ہے اور گلے میں اٹکنے والا کھانا ہے اور درد ناک سزا ہے۔ اور آیت میں ہے «كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ فَنَادَوا وَّلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ» [ 38- ص: 3 ] ‏‏‏‏۔ یعنی ہم نے ان سے پہلے اور بھی بہت سی بستیوں کو تباہ کر دیا اس وقت انہوں نے واویلا شروع کی جب کہ وہ محض بےسود تھی۔ یہاں فرماتا ہے آج تم کیوں شور مچا رہے ہو؟ کیوں فریاد کر رہے ہو؟ کوئی بھی تمہیں آج کام نہیں آسکتا تم پر عذاب الٰہی آ پڑے اب چیخنا چلانا سب بےسود ہے۔ کون ہے؟ جو میرے عذابوں کے مقابلے میں تمہاری مدد کر سکے؟

پھر ان کا ایک بڑا گناہ بیان ہو رہا ہے کہ «ذَٰلِكُم بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّـهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ وَإِن يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا فَالْحُكْمُ لِلَّـهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ» [ 40-غافر: 12 ] ‏‏‏‏ یہ میری آیتوں کے منکر تھے انہیں سنتے تھے اور ٹال جاتے تھے، بلائے جاتے تھے لیکن انکار کر دیتے تھے توحید کا انکار کرتے تھے شرک پر عقیدہ رکھتے تھے حکم تو بلندوبرتر اللہ ہی کا چلتا ہے «مُسْتَكْبِرِينَ» دال ہے ان کے حق سے ہٹنے اور حق کا انکار کرنے سے آیت ہے کہ «مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ» [ 23-سورة المؤمنون: 67 ] ‏‏‏‏ یہ اس وقت تکبر کرتے تھے اور حق اور اہل حق کو حقیر سمجھتے تھے۔ اس معنی کی رو سے بہ کے ضمیر کا مرجع یا تو حرم ہے یعنی مکہ کہ یہ اس میں بیہودہ بکواس بکتے تھے۔ یا قرآن ہے جسے یہ مذاق میں اڑاتے تھے کبھی شاعری کہتے تھے کبھی کہانت وغیرہ۔ یا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ راتوں کو بے کار بیٹھے ہوئے اپنی گپ شب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی شاعر کہتے، کبھی کاہن کہتے، کبھی جادوگر کہتے، کبھی جھوٹا کہتے، کبھی مجنون بتلاتے۔ حالانکہ حرم اللہ کا گھر ہے قرآن اللہ کا کلام ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں جہنیں اللہ نے اپنی مدد پہنچائی اور مکے پر قابض کیا۔ ان مشرکین کو وہاں سے ذلیل وپست کر کے نکالا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ یہ لوگ بیت اللہ کی وجہ سے فخر کرتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ وہ اولیاء اللہ ہیں حالانکہ یہ خیال محض وہم تھا۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مشرکین قریش بیت اللہ پر فخر کرتے تھے اپنے آپ کو اس کا مہتمم اور متولی بتلاتے تھے حالانکہ نہ اسے آباد کرتے تھے نہ اس کا صحیح ادب کرتے تھے امام ابن ابی حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں پر بہت کچھ لکھا ہے حاصل سب کا یہی ہے۔