اور جن لوگوں نے اللہ کے راستے میں وطن چھوڑا، پھر قتل کر دیے گئے، یا مر گئے یقینا اللہ انھیں ضرور رزق دے گا اچھا رزق اور بے شک اللہ ہی یقینا سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے۔[58]
یعنی جو شخص اپنا وطن اپنے اہل و عیال اپنے دوست احباب چھوڑ کر اللہ کی رضا مندی کے لیے اس کی راہ میں ہجرت کر جائے اس کے رسول کی اور اس کے دین کی مدد کے لیے پہنچے پھر وہ میدان جہاد میں دشمن کے ہاتھوں شہید کیا جائے یا بے لڑے بھڑے اپنی قضاء کے ساتھ اپنے بستر پر موت آ جائے اور اسے بہت بڑا اجر اور زبردست ثواب اللہ کی طرف سے ہے۔
جیسے ارشاد ہے آیت «وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا» [4-النساء:100] یعنی ” جو شخص اپنے گھر اور دیس کو چھوڑ کر اللہ رسول کی طرف ہجرت کر کے نکلے پھر اسے موت آ جائے تو اسے اس کا اجر اللہ کے ذمے طے ہو چکا۔ ان پر اللہ کا فضل ہو گا، انہیں جنت کی روزیاں ملیں گی جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ اللہ تعالیٰ بہترین رازق ہے “۔
انہیں پروردگار جنت میں پہنچائے گا۔ جہاں یہ خوش خوش ہونگے جسے فرمان ہے کہ «فَأَمَّا إِن كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّتُ نَعِيمٍ» [56-الواقعہ:88،89] ” جو ہمارے مقربوں میں سے ہے اس کے لیے راحت اور خوشبودار پھول اور نعمتوں بھرے باغات ہیں ایسے لوگوں کو راحت ورزق اور جنت ملے گی “۔
اپنی راہ کے سچے مہاجروں کو اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو اپنی نعمتوں کے مستحق لوگوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ وہ بڑے حکم والا ہے بندوں کے گناہ معاف فرماتا ہے ان کی خطاؤں سے درگزر فرماتا ہے ان کی ہجرت قبول کرتا ہے ان کے توکل کو خوب جانتا ہے۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوں مہاجر ہوں یا نہ ہوں وہ رب کے پاس زندگی اور روزی پاتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ» [3-آل عمران:169] ، ” خدا کی راہ کے شہیدوں کو مردہ نہ سمجھو وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزیاں دیے جاتے ہیں “۔
اس بارے میں بہت سی حدیثیں ہیں جو بیان ہوچکیں۔ پس فی سبیل اللہ شہید ہونے والوں کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہے اس آیت سے اور اسی بارے کی احادیث سے بھی۔
حضرت شرجیل بن سمط رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ روم کے ایک قلعے کے محاصرے پر ہمیں مدت گزر چکی اتفاق سے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو فرمانے لگے ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو شخص راہ اللہ کی تیاری میں مرجائے تو اس کا اجر اور رزق برابر اللہ کی طرف سے ہمیشہ اس پر جاری رہتا ہے اور وہ اتنے میں ڈالنے والوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت «وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ثُمَّ قُتِلُوْٓا اَوْ مَاتُوْا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللّٰهُ رِزْقًا حَسَنًاَ» [22-الحج:58] پڑھ لو ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:136/17:]
ابو قبیل اور ربیع بن سیف مغافری کہتے ہیں ہم رودس کے جہاد میں تھے ہمارے ساتھ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ دو جنازے ہمارے پاس سے گزرے جن میں ایک شہید تھا دوسرا اپنی موت مرا تھا لوگ شہید کے جنازے میں ٹوٹ پڑے۔ فضالہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا یہ شہید ہیں اور یہ دوسرے شہادت سے محروم ہیں۔ آپ نے فرمایا واللہ مجھے تو دونوں باتیں برابر ہیں، خواہ اس کی قبر میں سے اٹھوں خواہ اس کی میں سے۔ سنو کتاب اللہ میں ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔
اور روایت میں ہے کہ آپ مرے ہوئے کی قبر پر ہی ٹہھرے رہے اور فرمایا تمہیں اور کیا چاہیئے جنت، جگہ اور عمدہ روزی۔ اور روایت میں ہے کہ آپ اس وقت امیر تھے۔
یہ آخری آیت صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس چھوٹے سے لشکر کے بارے میں اتری ہے جن سے مشرکین کے ایک لشکر نے باوجود ان کے رک جانے کی حرمت کے مہینے میں لڑائی کی اللہ نے مسلمانوں کی امداد فرمائی اور مخالفین کو نیچا دکھایا اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔