چونکہ کفار عذاب مانگا کرتے تھے اور ان کی جلدی مچاتے رہتے تھے ان کے جواب میں اعلان کرایا جا رہا ہے کہ ” لوگو! میں تو اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں کہ تمہیں رب کے عذابوں سے جو تمہارے آگے ہیں چوکنا کر دوں، تمہارا حساب میرے ذمے نہیں۔ عذاب اللہ کے بس میں ہے چاہے اب لائے چاہے دیر سے لائے۔ مجھے کیا معلوم کہ تم میں کس کی قسمت میں ہدایت ہے اور کون اللہ کی رحمت سے محروم رہنے والا ہے چاہت اللہ کی ہی پوری ہونی ہے حکومت اسی کے ہاتھ ہے مختار اور کرتا دھرتا وہی ہے «لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ» [13-الرعد:41] ” کسی کو اس کے سامنے چوں چرا کی مجال نہیں وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے “۔ میری حیثیت تو صرف ایک آگاہ کرنے والے کی ہے “۔
جن کے دلوں میں یقین و ایمان ہے اور اس کی شہادت ان کے اعمال سے بھی ثابت ہے۔ ان کے کل گناہ معافی کے لائق ہیں اور ان کی کل نیکیاں قدردانی کے قابل ہیں۔ رزق کریم سے مراد جنت ہے۔ جو لوگ اوروں کو بھی اللہ کی راہ سے اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روکتے ہیں وہ جہنمی ہیں، سخت عذابوں اور تیز آگ کے ایندھن ہیں، اللہ ہمیں بچائے۔
اور آیت میں ہے کہ «الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ» [16-النحل:88] ” ایسے کفار کو ان کے فساد کے بدلے عذاب پر عذاب ہیں “۔