حضرت اسماعیل علیہ السلام، ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے فرزند تھے۔ سورۃ مریم میں ان کا واقعہ بیان ہو چکا ہے۔ ادریس علیہ السلام کا بھی ذکر گزر چکا ہے۔ ذوالکفل بہ ظاہر تو نبی ہی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ نبیوں کے ذکر میں ان کا نام آیا ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ نبی نہ تھے بلکہ ایک صالح شخص تھے اپنے زمانہ کے بادشاہ تھے بڑے ہی عادل اور بامروت، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اس میں توقف کرتے ہیں [تفسیر ابن جریر الطبری:507/18:] «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”یہ ایک نیک بزرگ تھے جنہوں نے اپنے زمانے کے نبی سے عہد و پیمان کئے اور ان پر قائم رہے۔ قوم میں عدل وانصاف کیا کرتے تھے۔“ [تفسیر ابن جریر الطبری:509/18:]
مروی ہے کہ جب یسع علیہ السلام بہت بوڑھے ہو گئے تو ارادہ کیا کہ میں اپنی زندگی میں ہی ان کا خلیفہ مقرر کر دوں اور دیکھ لوں کہ وہ کیسے عمل کرتا ہے۔ لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ تین باتیں جو شخص منظور کرے میں اسے خلافت سونپتا ہوں۔
دن بھر روزے سے رہے رات بھر قیام کرے اور کبھی بھی غصے نہ ہو۔ کوئی اور تو کھڑا نہ ہوا ایک شخص جسے لوگ بہت ہلکے درجے کا سمجھتے تھے کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں اس شرط کو پوری کر دوں گا۔ آپ نے پوچھا یعنی تو دنوں میں روزے سے رہے گا اور راتوں کو تہجد پڑھتا رہے گا اور غصہ نہ کرے گا؟ اس نے کہا ہاں۔ یسع علیہ السلام نے فرمایا اچھا اب کل سہی۔
دوسرے روز بھی آپ نے اسی طرح مجلس میں عام سوال کیا لیکن اس شخص کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوا۔ چنانچہ انہی کو خلیفہ بنا دیا گیا۔ اب شیطان نے چھوٹے چھوٹے شیاطین کو اس بزرگ کے بہکانے کے لیے بھیجنا شروع کیا۔ مگر کسی کی کچھ نہ چلی۔
ابلیس خود چلا دوپہر کو قیلولے کے لیے آپ لیٹے ہی تھے جو خبیث نے کنڈیاں پیٹنی شروع کر دیں آپ نے دریافت فرمایا کہ تو کون ہے؟ اس نے کہنا شروع کیا کہ میں ایک مظلوم ہوں فریادی ہوں میری قوم مجھے ستارہی ہے۔ میرے ساتھ انہوں نے یہ کیا یہ کیا اب لمبا قصہ سنانا شروع کیا تو کسی طرح ختم ہی نہیں کرتا نیند کا سارا وقت اسی میں چلا گیا اور ذوالکفل دن رات بس صرف اسی وقت ذرا سی دیر کے لیے سوتے تھے۔
آپ نے فرمایا اچھا شام کو آنا میں تمہارا انصاف کر دوں گا اب شام کو آپ جب فیصلے کرنے لگے ہرطرف اسے دیکھتے ہیں لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں یہاں تک کہ خود جا کر ادھر ادھر بھی تلاش کیا مگر اسے نہ پایا۔ دوسری صبح کو بھی وہ نہ آیا پھر جہاں آپ دوپہر کو دو گھڑی آرام کرنے کے ارادے سے لیٹے جو یہ خبیث آ گیا اور دروازہ ٹھونکنے لگا آپ نے کھول دیا اور فرمانے لگے میں نے تو تم سے شام کو آنے کو کہا تھا، منتظر رہا لیکن تم نہ آئے۔
وہ کہنے لگا کیا بتاؤں جب میں نے آپ کی طرف آنے کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگے تم نہ جاؤ ہم تمہارا حق ادا کر دیتے ہیں میں رک گیا پھر انہوں نے اب انکار کر دیا اور بھی کچھ لمبے چوڑے واقعات بیان کرنے شروع کر دئے اور آج کی نیند بھی کھوئی اب شام کو پھر انتظار کیا لیکن نہ اسے آنا تھا نہ آیا۔
تیسرے دن آپ نے آدمی مقرر کیا کہ دیکھو کوئی دروازے پر نہ آنے پائے مارے نیند کے میری حالت غیر ہو رہی ہے آپ ابھی لیٹے ہی تھے جو وہ مردود پھر آگیا چوکیدار نے اسے روکا یہ ایک طاق میں سے اندر گھس گیا اور اندر سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا۔ آپ نے اٹھ کر پہرے دار سے کہا کہ دیکھو میں نے تمہیں ہدایت کر دی تھی پھر بھی آپنے دروازے کے اندر کسی کو آنے دیا اس نے کہا نہیں میری طرف سے کوئی نہیں آیا۔ اب جو غور سے آپ نے دیکھا تو دروازے کو بند پایا۔ اور اس شخص کو اندر موجود پایا۔
آپ پہچان گئے کہ یہ شیطان ہے اس وقت شیطان نے کہا اے ولی اللہ میں تجھ سے ہارا نہ تو نے رات کا قیام ترک کیا نہ تو اس نوکر پر ایسے موقعہ پر غصے ہوا پس اللہ نے ان کا نام ذوالکفل رکھا۔ اس لیے کہ جن باتوں کی انہوں نے کفالت لی تھیں انہیں پورا کر دکھایا۔ [ابن ابی حاتم]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی کچھ تفسیر کے ساتھ یہ قصہ مروی ہے اس میں ہے کہ بنواسرائیل کے ایک قاضی نے بوقت مرگ کہا تھا کہ میرے بعد میرا عہدہ کون سنبھالتا ہے؟ اس نے کہا میں چنانچہ ان کا نام ذوالکفل ہوا اس میں ہے کہ شیطان جب ان کے آرام کے وقت آیا پہرے والوں نے روکا اس نے اس قدر غل مچایا کہ آپ جاگ گئے دوسرے دن بھی یہی کیا تیسرے دن بھی یہی کیا اب آپ اس کے ساتھ چلنے کے لیے آمادہ ہوئے کہ میں تیرے ساتھ چل کر تیرا حق دلواتا ہوں لیکن راستے میں سے وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ کھڑا ہوا۔
حضرت اشعری رحمہ اللہ نے منبر پر فرمایا کہ ذوالکفل نبی نہ تھا بنواسرائیل کا ایک صالح شخص تھا جو ہر روز سو نمازیں پڑھتا تھا اس کے بعد انہوں نے اس قسم کی عبادتوں کا ذمہ اٹھایا۔ اس لیے انہیں ذوالکفل کہا گیا۔
ایک منقطع روایت میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہا سے یہ منقول ہے۔ ایک غریب حدیث مسند امام احمد بن حنبل میں ہے اس میں کفل کا ایک واقعہ بیان ہے ذوالکفل نہیں کہا گیا۔ بہت ممکن ہے یہ کوئی اور صاحب ہوں۔
واقعہ اس حدیث میں یہ ہے کہ کفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے بچتا نہ تھا۔ ایک مرتبہ اس نے ایک عورت کو ساٹھ دینار دے کر بدکاری کے لیے آمادہ کیا جب اپنا ارادہ پورا کرنے کے لیے تیار ہوا تو وہ عورت رونے اور کانپنے لگی۔ اس نے کہا میں نے تجھ سے کوئی زبردستی تو کی نہیں پھر رونے اور کانپنے کی وجہ کیا ہے؟ اس نے کہا میں نے ایسی کوئی نافرمانی آج تک اللہ تعالیٰ کی نہیں کی۔ اس وقت میری محتاجی نے مجھے یہ برا دن دکھایا ہے۔ کفل نے کہا تو ایک گناہ پر اس قدر پریشان ہے؟ حالانکہ اس سے پہلے تو نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ اسی وقت اسے چھوڑ کر اس سے الگ ہو گیا اور کہنے لگا جا یہ دینار میں نے تجھے بخشے۔ قسم اللہ کی آج سے میں کسی قسم کی اللہ کی نافرمانی نہ کروں گا۔ اللہ کی شان اسی رات اس کا انتقال ہوتا ہے۔ صبح لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کے دروازے پر قدرتی حروف سے لکھا ہوا تھا کہ اللہ نے کفل کو بخش دیا ۔ [سنن ترمذي:2496،قال الشيخ الألباني:ضعیف]