اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ ” تمہیں جو ستایا جا رہا ہے، مذاق میں اڑایا جاتا ہے اور جھوٹا کہا جاتا ہے، اس پر پریشان نہ ہونا، کافروں کی یہ پرانی عادت ہے۔ اگلے نبیوں کے ساتھ بھی انہوں نے یہی کیا جس کی وجہ سے آخرش عذابوں میں پھنس گئے “۔
جیسے فرمان ہے آیت «وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ» [6-الأنعام:34] ، ” تجھ سے پہلے کے انبیاء بھی جھٹلائے گئے اور انہوں نے اپنے جھٹلائے جانے پر صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی۔ اللہ کی باتوں کا بدلنے والا کوئی نہیں۔ تمہارے پاس رسولوں کی خبریں آچکی ہیں “۔
پھر اپنی نعمت بیان فرماتا ہے کہ ” وہ تم سب کی حفاظت دن رات اپنی ان آنکھوں سے کر رہا ہے جو نہ کبھی تھکیں نہ سوئیں “۔
«مِنَ الرَّحْمَٰنِ» کا معنی رحمان کے بدلے یعنی رحمان کے سوا ہیں۔ عربی شعروں میں بھی «مِنَ» بدل کے معنی میں ہے۔ اسی ایک احسان پر کیا موقوف ہے۔ یہ کفار تو اللہ کے ہر ایک احسان کی ناشکری کرتے ہیں بلکہ اس کی نعمتوں کے منکر اور ان سے منہ پھیرنے والے ہیں۔
پھر بطور انکار کے ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ فرماتا ہے کہ ” کیا ان کے معبود جو اللہ کے سوا ہیں، انہیں اپنی حفاظت میں رکھتے ہیں؟ “ یعنی وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ ان کا یہ گمان محض غلط ہے۔ بلکہ ان کے معبودان باطل خود اپنی مدد و حفاظت کے بھی مالک نہیں۔ بلکہ وہ ہم سے بچ بھی نہیں سکتے۔ ہماری جانب سے کوئی خبر ان کے ہاتھوں میں نہیں۔ ایک معنی اس جملے کے یہ بھی ہیں کہ ” نہ تو وہ کسی کو بچا سکیں نہ خود بچ سکیں “۔