قرآن مجيد

سورة الأنبياء
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ[35]
ہر جان موت کو چکھنے والی ہے اور ہم تمھیں برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، آزمانے کے لیے اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔[35]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 34، 35،

خضر علیہ السلام مر چکے ہیں ٭٭

جتنے لوگ ہوئے، سب کو ہی موت ایک روز ختم کرنے والی ہے۔ «كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ» [55-الرحمن:26-27] ‏‏‏‏ ” تمام روئے زمین کے لوگ موت سے ملنے والے ہیں۔ ہاں رب کی جلال و اکرام والی ذات ہی ہمیشہ اور لازوال ہے “۔

اسی آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ خضر علیہ السلام مرگئے۔ یہ غلط ہے کہ وہ اب تک زندہ ہوں کیونکہ وہ بھی انسان ہی تھے، ولی ہوں یا نبی ہوں یا رسول ہوں، تھے تو انسان ہی۔

” ان کفار کی یہ آرزو کتنی ناپاک ہے کہ تم مرجاؤ؟ تو کیا یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟ “ ایسا تو محض ناممکن ہے، دنیا میں تو چل چلاؤ لگ رہا ہے۔ کسی کو بجز ذات باری کے دوام نہیں۔ کوئی آگے ہے کوئی پیچھے۔

پھر فرمایا «كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ» [آیت35] ‏‏‏‏ ” موت کا ذائقہ ہر ایک کو چکھنا پڑے گا “۔

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ میری موت کے آرزو مند ہیں تو کیا اس کے بارے میں میں ہی اکیلا ہوں؟ یہ وہ ذائقہ نہیں جو کسی کو چھوڑ دے۔‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے بھلائی برائی سے، سکھ دکھ سے، مٹھاس کڑواہٹ سے، کشادگی تنگی سے ہم اپنے بندوں کو آزما لیتے ہیں تاکہ شکر گزار اور ناشکرا، صابر اور ناامید کھل جائے۔ صحت و بیماری، تونگری، فقیری، سختی، نرمی، حلال، حرام، ہدایت، گمراہی، اطاعت، معصیت۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:440/18:] ‏‏‏‏ یہ سب آزمائشیں ہیں۔ اس میں بھلے برے کھل جاتے ہیں۔ تمہارا سب کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے۔ اس وقت جو جیسا تھا کھل جائے گا۔ بروں کوسزا نیکوں کو جزا ملے گی “۔