قرآن مجيد

سورة الأنبياء
لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ[27]
وہ بات کرنے میں اس سے پہل نہیں کرتے اور وہ اس کے حکم کے ساتھ ہی عمل کرتے ہیں۔[27]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 26، 27، 28، 29،

خشیت الٰہی ٭٭

کفار مکہ کا خیال تھا کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں۔ ان کے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے کہ ” یہ بالکل غلط ہے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے بزرگ بندے ہیں، بڑی بڑائیوں والے ہیں اور ذی عزت ہیں۔ قولاً اور فعلاً ہروقت اطاعت الٰہی میں مشغول ہیں۔ نہ تو کسی امر میں اس سے آگے بڑھیں، نہ کسی بات میں اس کے فرمان کا خلاف کریں بلکہ جو وہ فرمائے، دوڑ کر اس کی بجا آوری کرتے ہیں۔ اللہ کے علم میں گھرے ہوئے ہیں اس پر ان کی کوئی بات پوشیدہ نہیں۔ آگے پیچھے دائیں بائیں کا اسے علم ہے، ذرے ذرے کا وہ دانا ہے۔ یہ پاک فرشتے بھی اتنی مجال نہیں رکھتے کہ اللہ کے کسی مجرم کی اللہ کے سامنے اس کی مرضی کے خلاف سفارش کے لیے لب ہلا سکیں “۔

جیسے فرمان ہے آیت «مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ» [2-البقرة:255] ‏‏‏‏ ” وہ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش اس کے پاس لے جا سکے؟ “

اور آیت میں ہے «وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ» [34-سبأ:23] ‏‏‏‏ یعنی ” اس کے پاس کسی کی شفاعت اس کی اپنی اجازت کے بغیر چل نہیں سکتی “۔

اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔ فرشتے اور اللہ کے مقرب بندے کل کے کل خشیت الٰہی سے، ہیبت رب سے لرزاں و ترساں رہا کرتے ہیں۔ ” ان میں سے جو بھی خدائی کا دعویٰ کرے، ہم اسے جہنم واصل کردیں۔ ظالموں سے ہم ضرور انتقام لے لیا کرتے ہیں “۔ یہ بات بطور شرط ہے اور شرط کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کا وقوع بھی ہو۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ خاص بندگان اللہ میں سے کوئی ایسا ناپاک دعویٰ کرے اور ایسی سخت سزا بھگتے۔

اسی طرح کی آیت «قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَـٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ» [43-الزخرف:81] ‏‏‏‏ اور «لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ» [39-الزمر:65] ‏‏‏‏، ہے۔ پس نہ تو رحمن کی اولاد ہے نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرک ممکن۔